پاکستان میں تدریسِ زبان اور ذریعۂ تعلیم کا مسئلہ (2)
میں نے پہلی قسط میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ دو جملوں میں یہ ہے کہ تعلیمی ترقی کی بنیاد پرائمری میں ڈالنی ضروری ہے اور یہ کہ ہمیں پورے ملک میں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ذریعہ تعلیم کون سی زبان کو بنایا جائے؟ میں نے یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ آزادی کے بعد بھارت میں یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے سہ لسانی فارمولا بنایا گیا تھا؛ انگریزی اور ہندی کو لازمی زبانیں قرار دیا گیا اور مختلف علاقوں میں تیسری تدریسی زبان متعلقہ علاقائی زبان کو اختیار کیا گیا۔ اس فارمولے سے وہاں کا لسانی مسئلہ بہت حد تک حل ہو گیا۔ پاکستان میں بھی ایک سہ لسانی فارمولے کی ضرورت ہے۔ یہاں اس مسئلے کا حل بھارت کے مقابلہ میں آسان ہے۔ بھارت کی کئی علاقائی زبانوں کا رسم الخط اور لفظی ذخیرہ ہندی سے یکسر مختلف ہے جبکہ پاکستان میں ہر زبان کا بنیادی رسم الخط ایک ہی ہے۔ یہ خط عربی سے چند تبدیلیوں کے بعد فارسی کے لیے اختیار کیا گیا اور اسی میں متعدد آوازوں کا اضافہ کر کے اردو رسم الخط بن گیا۔
پنجابی، سندھی، بلوچی، براہوی اور دوسری تمام علاقائی زبانیں معمولی تبدیلیوں کے بعد اسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں اس لیے ’اردو خط‘ پاکستان کے کسی علاقے کے لیے اجنبی نہیں۔ اردو کا ذخیرۂ الفاظ تمام علاقائی زبانوں سے بہت کچھ اشتراک رکھتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی میں 98 فیصد مسلمان ہیں اس لیے قرآن، احادیث اور دیگر مذہبی مسائل سے وہ گھروں میں یا مسجدوں میں کچھ آگاہی حاصل کر لیتے ہیں اسی وجہ سے عربی اور فارسی کے متعدد الفاظ روزمرہ بول چال میں شامل ہو گئے ہیں۔ مسجدوں اور ان سے ملحق مدرسوں میں فارسی سے تدریس شروع ہوا کرتی تھی۔ ’کریما‘ سے ’گلستانِ سعدی‘ تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔ چنانچہ فارسی اور عربی کے الفاظ علاقائی زبانوں میں رائج ہو جاتے تھے۔ اس طرح اردو اور علاقائی زبانوں میں لفظی اشتراک کا مضبوط رشتہ قائم ہو جاتا تھا۔
علاوہ ازیں، مقامی زبانوں سے آئے ہوئے سنسکرت الفاظ بھی تھوڑے بہت رد و بدل کے بعد تمام پاکستانی زبانوں میں موجود ہیں۔ اس کی مزید توثیق چاہیے تو ’ ہفت زبانی لغت‘ مطبوعہ مرکزی اردو بورڈ لاہور ملاحظہ کیجیے اور اس کے چند صفحات کو ادھر ادھر سے دیکھیے تو آپ کو فوراً معلوم ہو جائے کہ تمام پاکستانی زبانوں کے ذخیرۂ الفاظ میں کتنا اشتراک ہے! مزید یہ کہ پورے پاکستان میں مختلف زبانیں بولنے والے جب آپس میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں تو وہ مجبوراً اردو کو ذریعۂ گفتگو بناتے ہیں۔ پنجاب کی تمام زبانیں مثلاً وسطی پنجاب کی پنجابی، پوٹھوہاری، ہندکو، رچناوی (جھنگ اور سرگودھا کی بولی) اور سرائیکی وغیرہ اردو سے قربتِ قریبہ رکھتی ہیں۔ اس کے بعد سندھی آتی ہے جو سرائیکی سے بہت کچھ قرب رکھتی ہے۔ البتہ پشتو، بلوچی، براہوی وغیرہ کی گرامر کسی قدر مختلف ہے لیکن ان علاقوں کے لوگ بھی اردو میں جلد رواں ہو جاتے ہیں اور اردو میں ادب بھی تخلیق کرنے لگتے ہیں۔
غرض اردو کو پاکستان کی قومی زبان کے طور پر پڑھنا اور بولنا ہماری ضرورت ہی نہیں مجبوری ہے۔ اگر اردو کو بیچ میں سے ہٹا دیا جائے تو ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کے لوگوں سے کس زبان میں تبادلۂ خیال کریں گے؟ ظاہر ہے کہ انگریزی تو اس ضرورت کو پورا کرنے سے رہی۔ اس لیے اردو کو تمام صوبوں میں قومی زبان کی حیثیت سے قبول کرنا ضروری ہے البتہ یہ بھول جانا چاہیے کہ پاکستانی اردو میں دہلی یا لکھنؤ کے لہجے، روزمرہ یا محاورے کو بہرصورت برقرار رکھا جائے۔ اگر مقامی الفاظ، لہجہ، روزمرہ یا محاورہ پاکستانی اردو میں جگہ بنا رہا ہے تو اس کی پذیرائی کرنی چاہیے۔ میں تو اس کا بھی حامی ہوں کہ تذکیر و تانیث میں بھی غیر ضروری سختی سے گریز کرنا چاہیے۔
اردو کے ساتھ ساتھ تمام مقامی بولیوں کو بھی ان کا حق دینا ضروری ہے۔ پرائمری جماعتوں سے ہر علاقے میں وہاں کی علاقائی زبانوں کی تدریس ہونی چاہیے۔ اپنی اپنی زبان کی ترقی کے لیے مختلف صوبوں کو بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں اور کم از کم مڈل تک یعنی پہلی سے آٹھویں جماعت تک اسے لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جانا چاہیے۔ اس کے بعد اسے لازمی مضمون کی بجائے اختیاری مضمون کی حیثیت سے یونیورسٹی کی اعلیٰ جماعتوں تک جاری رہنا چاہیے۔ ہر صاحبِ اختیار اور ہر صاحبِ قلم کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اردو اور علاقائی زبانیں نہ صرف اپنے اپنے دائروں میں رہ کر ترقی کریں بلکہ قومی زبان اور علاقائی زبانیں تراجم کے ذریعے مستحکم تعلق قائم کریں۔
یہاں میں یہ بھی کہنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ اسلام آباد کی وزارتِ تعلیم اور ثقافت کو یہ چاہیے کہ مختلف زبانوں کے ادیبوں کے مل بیٹھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں۔ ان زبانوں کے ادیبوں کے وفود دوسرے علاقوں میں بھیجے جائیں۔ وہاں ادبی تقریبات ہوں، ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کے موقعے ملیں تو اس سے قومی یک جہتی پیدا ہو گی، باہمی تعصبات کم ہوں گے اور اس میل ملاپ سے سب کو پتا چلے گا کہ ہمارے تمام علاقوں میں بسنے والے ایک جیسے ہی انسان ہیں۔ ان کے دکھ سکھ ایک جیسے ہیں۔ ان کی بنیادی ضروریات بھی ایک جیسی ہیں۔ ہم سب ایک ہی طرح کے استحصال کا شکار ہیں۔ اگر ایک علاقہ ترقی سے محروم ہے اور اس میں غریب طبقہ زیادہ ہے تو دوسرے علاقوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ اس لیے کہیں بھی عوام ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ اور انھیں یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ ان سب کے مشترک دشمن کون ہیں؟ اس لیے ایسے وفود کا تبادلہ قومی اتحاد اور اتفاق رائے پیدا کرنے میں بہت معاون ثابت ہو گا۔
پاکستان میں جس تیسری زبان کی ضرورت ہے وہ انگریزی ہے۔ اس وقت انگریزی تیزی سے دنیا کی ’لنگوا فرینکا‘ بنتی جا رہی ہے۔ امریکا سے آسٹریلیا تک ہر جگہ اس کو ذریعۂ اظہار بنایا جا رہا ہے۔ شاید ہی کوئی ترقی یافتہ ملک ایسا ہو جہاں انگریزی کسی نہ کسی درجے پر پڑھائی نہ جاتی ہو۔ چین اور جاپان وغیرہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مثلاً چین میں عام لوگ شاید انگریزی کا کوئی لفظ نہیں جانتے لیکن ان کے بھی اعلیٰ تدریسی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں میں ہر کسی کو چند سال انگریزی پڑھنی پڑتی ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک بھی ثانوی زبان کے طور پر انگریزی کو اپنا رہے ہیں۔ پاکستان انگریزی کو ترک کر کے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی انگریزی کو ملک سے باہر نکالنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اس کے بغیر ہم روز افزوں ترقی پذیر ایجادات سے محروم رہ جائیں گے مگر اصل اور مشکل سوال یہ ہے کہ اردو، علاقائی زبان اور انگریزی کو پڑھانے کا تناسب کیا ہو؟ یعنی اردو کتنے سال پڑھائی جائے اور علاقائی زبان کس درجے سے شروع ہو اور کتنے سال تک اس کی تدریس جاری رہے؟ انگریزی کس جماعت سے شروع کی جائے اور کتنے سال پڑھائی جائے؟ اس کے لیے اتفاق رائے آسان نہیں۔ اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر کیا ہے؟ اس کے لیے ایک الگ کالم درکار ہو گا جو ان شاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا۔ (ختم شد)