موبائل فون کابے تحاشا استعمال اور مضمرات
موبائل فون جہاں ایک نعمت ہے ، وہاںآج ٹیکنالوجی کے جدید دور میں یہ ایک بہت بڑی زحمت میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ نئی نسل باالخصوص اس ایجاد سے متاثر ہورہی ہے ۔ آج بچے بچے کے ہاتھ میں ایک ایک موبائل فون ہے، وہ سکول سے آتے ہی موبائل فون پر جھک جاتے ہیں ۔ مختلف قسم کی گیمزکھیلتے ہیں، سوشل میڈیا کی پوسٹیں دیکھتے ہیں ،فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک پر وڈیوز دیکھ دیکھ کر اپنا وقت ضائع کرنے کے علاوہ اپنی صحت برباد کررہے ہیں۔ آنکھوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل فون استعمال کرنے والے پچاس فیصد عینک لگوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل فون اور کمپیوٹر کی اکثر گیمز کی وجہ سے بچے متشدد ہوجاتے ہیں۔ والدین سے جھگڑنے لگ جاتے ہیں۔ موبائل فون پر خودکشی اور دیگر منفی نفسیاتی طریقے بتائے جاتے ہیں، جن پر عمل کرکے اکثر نوجوان اور بچے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ بعض بچے اپنی حیرت انگیز اورسرپرائز وڈیو بنانے کیلئے یا سیلفیاں لیتے نہر یا دریا میں گرکر مرجاتے ہیں۔ جو نوجوان رات بھر موبائل فون کے نائٹ پیکیجز کرواکر انتہائی اہم ترین ’’قومی سماجی ،سوشل سرگرمیوں ‘‘ میں مصروف ِ کار رہتے ہیں، ان کی کلائیوں کی ہڈیاں کمزور پڑجاتی ہیں اور ان کے کندھوں کے پٹھے سن ہوجاتے ہیں۔ جس سے ان کا پورا بازو حرکت کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اکثر نوجوان گردن اور ریڑھ کی ہڈی کے دردوں اور امراض میں مبتلا ہورہے ہیں ۔سردردبھی موبائل فون کلچر کا خاصہ ہے۔
یہ تو تھے موبائل فون کے ہماری صحت پراثرات۔ یہی موبائل فون کلچرہماری نوجوان نسل کا اخلاق وکردار بری طرح خراب کررہا ہے۔ موبائل فون پر چیٹ کرتے ہوئے وہ دوسروں کو گندے ناموں سے پکارتے ہیں۔ انہیں کسی کی عزت کا لحاظ نہیں ہوتا۔ نہ چھوٹے ، بڑے کی تمیزباقی رہتی ہے۔ موبائل فون پر دوستیاں کی جاتی ہیں، لڑکا اور لڑکی اپنی جنس اور آواز تبدیل کرکے بظاہر ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں،جبکہ حقیقت میں چند لمحات کی تفریح کے نام پراپنے آپ کوہی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور اپناقیمتی کیرئیر اور اپنے والدین کی زندگیاں دائوپرلگادیتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی کرامات کے بعد موبائل فون خطرناک ترین ایٹمی اسلحے سے بھی زیادہ مہلک بن چکے ہیں۔باالخصوص پاکستان کیخلاف بھارت نے جو ہائبرڈ وار شروع کررکھی ہے ، جس میں اسرائیل و دیگر پاکستان دشمن قوتیں اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس ففتھ جنریشن نفسیاتی و ثقافتی وار کے ذریعے پاکستان میں انتشار پیدا کریں اور خانہ جنگی کا ماحول بنادیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے اپنے لوگ ناسمجھی میں ان کے آلہ کار بن گئے ہیں۔مگر اب یہ کام دیدہ دانستہ ہورہا ہے ۔ اس کے عوض خوب پیسے کمائے جاتے ہیں ۔ رینکنگ کے چکر میں سماجی ،مذہبی،سیاسی،حکومتی اور دفاعی طبقات کیخلاف اندھا دھند الزام تراشی ایک وطیرہ بن گیا ہے۔ موبائل فون کو مذہبی فساد پھیلانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ حکومت نے کوشش کرکے ملی یکجہتی کونسل کے تعاون سے ایک پرامن ماحول بنایا تھااور لائوڈ اسپیکرپر پابندی سے اس کے مثبت اثرات بھی برآمد ہوئے تھے، مگر اب یہی کام سمارٹ موبائل فون پر بھی شروع کردیا گیا ہے، فرقہ ورانہ فسادات کے جراثیم پھیلائے جاتے ہیں ،حتیٰ کہ پورامعاشرہ ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیاہے۔
جب سے پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی اور بلیم گیم کا آغاز ہوا ہے ، اس کے بعد سے سمارٹ موبائل فون سوشل میڈیا وارمیں ایک خطرناک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے ۔ سیاسی لیڈروں کی کردارکشی کی جاتی ہے ۔ خاص طور پر خواتین کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے ۔ جواب درجواب کے سلسلے نے سیاسی اختلافات کو دشمنیوں میں تبدیل کردیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی سیکورٹی کومنفی پروپیگنڈے کا نشانہ ستم بنایا جارہا ہے ۔ بھارت میں لوگ ڈھول بجاکر اپنی خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں کہ جو کام ہم اربوں روپے خرچ کرکے ، کئی سالوں میں نہیں کرسکے ، وہ کام پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے چند ماہ میں کردکھایا ۔ پاکستان میں عوام کو فوج سے دورکرنے کی مذموم کوششیں ہورہی ہیں اور فوج کے اندر بھی تقسیم کا عمل ہورہا ہے ۔ اس ضمن میں ریٹائرڈ فوجی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کررہے ہیں ۔ جعلی اکائونٹس بنائے جاتے ہیں ۔ چند آدمی ایک کمرے میں بیٹھ کر لاکھوں لوگوں کے ترجمان بن جاتے ہیں۔اس ضمن میں پاک فوج انتہائی صبروحوصلے کا مظاہر ہ کررہی ہے ،ورنہ دشمن تو اپنا کام کرچکا ،پاک فوج سے محبت کرنے والے اس صورتحال پر دل گرفتہ ہیں اور پاکستان کی سلامتی بارے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہیں ۔ اگرچہ پاکستان میں جعلی خبریں اور الزام تراشی پھیلانے کیخلاف سخت قوانین نافذ ہیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ سارا کام ٹویٹر ، انسٹاگرام ، یوٹیوب،فیس بک ،ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرکیا جارہاہے ،جو حکومتِ پاکستان کے دائرہ کار سے باہر ہیں اور ملزمان تک پہنچنے کیلئے ان کی شناخت ظاہر نہیں کرتے۔
حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں فی الفور ٹھوس،مربوط اور جامع ’’سائبرکرائم پالیسی‘‘ تشکیل دینا ہوگی۔ یہ درست ہے کہ امریکہ اور برطانیہ طاقتور معاشی ممالک ہیں اوران کی حکومتیں بھی مستحکم ہیں ، اس لئے سابق امریکی صدر بش نے تمام سوشل میڈیا مالکان کو وائٹ ہائوس طلب کرکے وارننگ دی تھی کہ اگر انہوں نے دہشت گردی کے حق میں جاری مہم کو نہ روکا تو وہ ان تمام مالکان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردیں گے۔ اسی طرح برطانیہ میں چھوٹے معصوم بچوں کیساتھ جبری زیادتیوں کی وڈیوز منظرعام پر آئیں تو ٹونی بلیئر نے سوشل میڈیا مالکان کو بلاکرکہا تھا کہ اگر آپ نے آزادی اظہار دیئے رکھی تو میں آپ پر پابندیاں لگادوں گا اور آپ کو جیلوں کے پیچھے دھکیل دوں گا۔ تاہم مصیبت یہ ہے کہ تیسری دنیا کے کمزور ،ترقی پذیر ممالک اس طرح کا رعب نہیں جماسکتے ، اسی لئے ان کے ہاں سوشل میڈیا کے نت نئے فتنے سراٹھارہے ہیں ۔ ان پسماندہ ممالک میں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے ، نہ جان و مال ۔ من گھڑت الزام تراشی ایک معمول بن چکا ہے ۔ پگڑیاں اچھالنا اور چہروں پر کالک ملنا اسی موبائل فون کلچر کاشاخسانہ ہے۔
کیا ہی بہتر ہو کہ اس ضمن میں حکومتوں کے ساتھ والدین بھی اپنے بچوں پر نظر رکھیں اورانہیں الگ الگ سمارٹ موبائل فون کے بے تحاشا منفی استعمال کے اثرات سے آگاہی دیں اور لامحدود وائی فائی انٹرنیٹ کنکشن سے دور رکھیں۔ حکومت پاکستان کو موبائل فون کمپنیوں کی طرف سے سستے اور نائٹ پیکجز پر پابندیاں لگانی چاہئیں۔ یہ کام کٹھن تو ہے ، لیکن اگر ہم اپنے معاشرے کے تاروپود بکھرنے سے بچانا چاہتے ہیں اور ملکی سلامتی ویکجہتی کا تحفظ چاہتے ہیںاور ہرشہری کی جان ،مال، آبرو کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی آنکھیں،کان کھلے رکھنے ہونگے اور اپنے اپنے حصے کا ذمہ دارانہ قومی کردار ادا کرنا ہوگا۔
میں یہ کالم اس لئے لکھنے پر مجبور ہوا ہوں کہ ابھی ابھی مجھے موبائل فون پر ایک فراڈکرنے والے نوسرباز گروہ نے اپنے دام میں پھانسنے کی کوشش کی، انہوں نے کہاکہ ہم تھانے سے بول رہے ہیں، آپکا بیٹا کسی جرم میں گرفتار ہوگیا ہے، اگر اسکی فوری رہائی چاہتے ہیں تو جاز کیش پر پچاس ہزار بھیج دیں۔ میں نے بتایا کہ میں ایک بیروزگار بوڑھا بیمارشخص ہوں، اگر آپ یہ معاملہ اسی طرح حل کرنا چاہتے ہیں تو مجھے دس منٹ دیں تاکہ میں کسی ہمسائے سے پتہ کروں کہ پیسوں کا انتظام ہوسکتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ، آپ ان دس منٹ میں اپنا فون آن رکھیں گے اور سم بند نہیں کرینگے۔ میں نے کمرے سے باہر نکل کر اپنے بیٹوں کا اتہ پتہ کیاتو معلوم ہوا کہ سب خیریت سے ہیں۔ اس پر میں نے موبائل مافیا کے رکن سے کہا کہ آپ نے میرے جس بیٹے کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے ، اسے شوق سے حوالا ت میں بند کروادیں۔ آپ ایک فراڈیئے گینگ کے ممبر ہیں، مگرایک غلط آدمی سے آپکا رابطہ ہوگیا ہے، میرا تعارف کروانے پر مذکورہ نوسرباز فون بند کرکے بھاگ گیا۔ میں اس کالم کے ذریعے ایسے فراڈیئے موبائل گروہوں سے عوام کو ہوشیار رہنے کی اپیل کرتا ہوںجو مختلف حیلے بہانوں سے پیسے بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہوسکتا ہے ان کے گروہ میں کوئی پولیس والے بھی ہوں، اعلیٰ سرکاری حکام بھی ،جو ان کیخلاف خفیہ شکایت پر کوئی فوری کارروائی نہیں عمل میں لاتے۔