لاکھوں ووٹ لینے والا کہے فیصلے سڑکوں پر کروں گا توکیا یہ جمہوریت ہے:سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے استفسار کیا ہے کہ نیب قانون سے افواج پاکستان کو باہر رکھنے کا یہ عمل پی ٹی آئی کی نظر میں آئینی ہے یا غیر آئینی؟۔ عدالت نے آبزرویشن دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک شخص کو لاکھوں عوام نے ووٹ دے کر رکن پارلیمنٹ منتخب کیا، منتخب رکن پارلیمان سے باہر نکل کر کہے کہ فیصلہ سڑکوں پر کروں گا تو کیا یہ جمہوریت ہے؟۔ نیب ترامیم کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ نے عمران کے وکیل نے استفسار کیا کہ افواج پاکستان کو نیب کی دسترس سے باہر رکھا گیا ہے، افواج پاکستان کو نیب کی دسترس سے باہر رکھنے پر آپ کی کیا رائے ہے؟۔ اور یہ بھی بتائیں نیب قانون سے افواج پاکستان کو باہر رکھنے کی وجوہات کیا ہیں؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب قانون کی دسترس سے تو ججز بھی باہر نہیں ہیں، نیب قانون سے افواج پاکستان کو باہر رکھنے کا یہ عمل پی ٹی آئی کی نظر میں آئینی ہے یا غیر آئینی؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا ہے کہ ایک شخص کو لاکھوں عوام نے ووٹ دے کر رکن پارلیمنٹ منتخب کیا، آپ نے دلائل میں یہ بھی کہا کہ رکن پارلیمنٹ عوامی اعتماد کا امانت دار ہے، بتا دیں کہ منتخب رکن پارلیمان سے باہر نکل کر کہے کہ فیصلہ سڑکوں پر کروں گا تو کیا یہ جمہوریت ہے؟۔ ارکان پارلیمنٹ کا پارلیمان کو چھوڑ کر سڑکوں پر فیصلے کرنے سے جمہوری نظام کیسے چلے گا؟۔ اگر رکن پارلیمنٹ عوام کا اعتماد جیت کر آئے ہیں تو پارلیمان میں بیٹھیں۔ عمران کے وکیل نے کہا سپریم کورٹ نے آرمی چیف ایکسٹینشن کیس میں قانونی خلاء کو پر کیا تھا، اسفند یار ولی کیس میں بھی سپریم کورٹ نے ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اسفند یار ولی کیس میں عدالت نے انسانی حقوق سے منافی ہونے پر قانون کالعدم قرار دیا تھا، نیب ترامیم کیس میں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جو مسنگ ہے اس کو شامل کیا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نیب ترامیم سے جو شقیں نکالی گئیں ان سے قانون ہی غیر موثر ہو گیا، نیب ترامیم کے خلاف اس مقدمے میں نیب قانون اصل حالت میں بحال کرنے کا کہا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب کی جن شقوں میں ترمیم ہوئی وہ بنیادی حقوق کے خلاف نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا نیب قانون میں بہت سے سقم بھی تھے، نیب قانون میں کسی شخص کو محض الزام پر 90 روز کے لیے گرفتار کر لیا جاتا تھا، نیب ترامیم ملکی قانون میں پیش رفت ہیں، نیب قانون پر ترمیم سے پہلے بہت تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ عمران کے وکیل نے کہا نیب سمیت کسی بھی فوجداری مقدمے میں تحقیقات کے دوران گرفتاری کا حامی نہیں ہوں، اچھے سے اچھے قانون پر بھی عمل کرنے والے نا ہوں تو وہ بے وقعت ہوتا ہے، یہ نہیں چاہتے کہ تمام نیب ترامیم کالعدم قرار دی جائیں، نیب ترامیم میں پارلیمنٹ کی نیت دیکھنا بھی ضروری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ کی نیت جاننے کے لیے نیب ترامیم پر جو بحث ہوئی وہ دیکھنا ہو گی۔ خواجہ حارث نے کہا نیب ترامیم پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی ہی نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا حکومتی وکیل کا موقف ہے کہ نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ہوئیں، کیا نیب ترامیم کے خلاف پبلک بھی کچھ کہہ رہی ہے؟ یا پھر عدالت خود سے تعین کرے کہ نیب ترامیم سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا نیب قانون میں کوئی ترامیم عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر نہیں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے کہا درشن مسیح کیس میں پبلک نے عدالت سے رجوع کیا تھا، کیا نیب ترامیم کیس میں پبلک نے عدالت سے رجوع کیا ہے؟۔ خواجہ حارث نے کہا درشن مسیح کیس میں این جی اوز نے عدالت سے رجوع کیا تھا، خواہش ہے کہ کرپشن کے خلاف بھی این جی اوز بن جائیں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب ترامیم کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواست زیر التوا ہے، یہ بھی بتائیں کہ نیب ترامیم کے خلاف کیس واپس ہائیکورٹ کیوں نہیں بھجوایا جا سکتا؟۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت آج 13 دسمبر تک ملتوی کر دی۔