خود شناسی خدا شناسی
جس نے خود کو پہچان لیا اس نے خدا کو پالیا۔تمام الہامی کتابوں میں اورقرآن مجید میں بالخصوص تفکر یا غور و فکر کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ جگہ جگہ انسان کو تفکر اور تدبر کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور اپنی تخلیق پر غور کرے۔خود شناسی کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان خود سے سچ بولے، اپنے من میں سچے دل سے جھانکنے کا حوصلہ پیدا کرے۔خود احتسابی کی جرات رکھتا ہو۔جب خالقِ کائنات نے کہا کہ ’’ میں نے چاہا پہچانا جائوں ، اس لئے میں نے مخلوق کو پیدا کیا ‘‘تو معلوم ہوا کہ ہماری تخلیق کا مقصد خالق کی پہچان، لیکن یہ پہچان کیسے تو وہ ایسے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا ’’خدا کو کیسے پہچانیں‘‘، جواب ملا ’’خود کوپہچانو ،خد ا کوپہچان جائو گے‘‘۔انسان قابل رحم ہے، غلطیوں، کوتاہیوں، بْرائیوں، گناہوں، لغزشوں، خود فریبی اور خود ساختہ آزمائشوں میں گھرا ہوا یہ کمزور انسان اپنی روح کے آئینہ میں اپنی ہی صورت دیکھنے سے گھبراتا ہے۔ یہ مختلف مشاغل اور مصروفیات جو اس نے پال رکھی ہیں، خود سے فرار حاصل کرنے کے جواز ہیں۔ ماضی میں جھانکنے کی جرأت نہیں اور اگر کبھی چند لمحے نصیب آ جائیں تو ماضی کے صرف وہی اوراق پلٹنا چاہتا ہے جس میں اس کی ’’میں‘‘ کو تسکین پہنچ سکے کہ وہ ہمیشہ سے کمال تھا، لیکن اس کے کمالات میں کتنے پچھتاوے پوشیدہ ہیں، انہیں یاد کر کے اپنا حال بے مزہ نہیں کرنا چاہتا۔ انسان کو ہر حال میں مست رہنا ہے کہ کل کس نے دیکھی جبکہ دیکھنے والا اس کا آج بھی دیکھ رہا ہے، قابل رحم ’’آج‘‘۔ زندگی ہے کہ منہ زور گھوڑے کی مانند دوڑے چلی جا رہی ہے اور انسان ہے کہ اس کے پاس اپنے ساتھ ہی وقت گزارنے کی فرصت میسر نہیں۔ تنہائی کے چند لمحے میسر آ جائیں تو اس کا دل گھبرانے لگتا ہے ، ٹی وی کا بٹن آن کر دیتا ہے یا فون کرنے لگتا ہے یا موبائل میں پیغامات پڑھنے یا انہیں ڈیلیٹ کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے یا کسی دوست عزیز کو بْلا لیتا ہے یا خود اس کے پاس چلا جاتا ہے۔ اپنی ذات سے فرار کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر ہی لیتا ہے۔ خود سے فرار اور بیزاری کا یہ عالم ہے کہ دوران عبادت بھی اپنے ساتھ نہیں ہوتا، اسے فلاں کام کرنا ہے، فلاں کے پاس جانا ہے، فلاں کو بلانا ہے، فلاں فلاں فلاں۔۔۔ جبکہ تمام کام اور مشاغل میں سب سے اہم اس کی اپنی ذات ہے، وہ ذات جس میں ذات برحق کا نور پھوٹ رہا ہے۔ اس بت کے اندر اصل ذات سے آنکھیں چراتا ہے اور پھر ’’چْھپن چْھپائی‘‘ کے اس کھیل میں اسے خبر ہی نہیں ہو پاتی کہ کب زندگی کا سفر اختتام پذیر ہو گیا۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، پیسے کی دوڑ، سیاست کی دوڑ، شہرت کی دوڑ، مصروفیت کی دوڑ، تقریبات کی دوڑ، گپ شپ ہنسی کھیل تماشے کی دوڑ، فیشن کی دوڑ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ۔ اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون! والدین کی دوڑ سب سے زیادہ قابل رحم صورتحال اختیار کر رہی ہے۔ اعلیٰ درسگاہوں میں بچوں کے داخلے، ملازمتیں، ترقیاں، من پسند تبادلے انسان کو انسان کا محتاج بنا دیتے ہیں۔ اچھے خاصے لوگ حق گوئی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مقتدر حضرات سے بنا کر رکھنا (پاکستانیوں) کی مجبوری ہے کہ نہ جانے کب کہاں کس کی ضرورت آن پڑے۔ خدا کم ظرف انسانوں کے احسانات سے محفوظ رکھے اور خاص طور پر ایسا احسان جس کے دبائو تلے انسان حق گوئی سے معذور ہو جائے۔ انسان کے پاس اپنے محبوب مشاغل کے لئے فرصت میسر ہے مگر اپنی ذات کے لیئے وقت نہیں۔ صرف اپنی ذات کے ساتھ وقت گزار کر دیکھو، خود پر رحم نہ آئے تو کہنا۔ چار دن کی زندگی میں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا ہو جو تم نے صرف اور صرف اپنے ساتھ گزارکر دیکھا ہو۔ اللہ سبحان وتعالیٰ کے فرمان کے مطابق ایک لمحہ کا تفکر ہزار برس کی عبادت سے افضل ہے اور وہ ایک لمحہ خود شناسی کا لمحہ ہوتا ہے۔ ساری دنیا کی کتابیں پڑھ لو، اپنی ذات کے ساتھ بولا ایک سچ تمام علوم پر حاوی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جس کو بڑے سے بڑے فلسفہ دان بھی سمجھنے اور سمجھانے سے قاصر ہیں۔ وہ لمحہ جو صرف اپنی تلاش میں گزار لیا، اس کا حال مت پوچھو
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے
اور جب اصل کو وصل مل جائے تو انسان خود سے بھاگنا چھوڑ دیتا ہے، خدا شناس ہوجاتا ہے ، خلوت میں خالق سے ہم کلام رہتا ہے۔