• news

افغان بارڈر فورسز کی چمن میں  شہریوں پر فائرنگ کا افسوسناک واقعہ


پاکستان نے اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کے لیے ہمیشہ خیر خواہی کے جذبات کا اظہار ہے اور اس کے استحکام کے لیے نہ صرف مختلف مواقع پر اسے امداد و اعانت فراہم کی بلکہ اس کی خاطر قربانیاں بھی دیں۔ اس وقت بھی پاکستان میں، اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، 16 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے پاکستان ان افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھارہا ہے اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو پاکستان میں اپنے کاروبار چلا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، افغانستان پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے اسے سب سے پہلے جس سے ملک سے امداد ملتی ہے وہ پاکستان ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان افغانستان اور افغان عوام کے لیے محبت اور خلوص کے جذبات رکھتا ہے۔ اس سب کے باوجود افغانستان کی طرف سے پاکستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاک افغان سرحدی علاقوں میں خاص طور پر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان پاکستان کے مثبت جذبات کی قدر کم ہی کرتا ہے۔ اتوار کو پیش آنے والے ایک تازہ واقعے میں افغان بارڈر فورسز نے بلوچستان کے علاقے چمن میں فائرنگ کر کے 6 پاکستانی شہریوں کو شہید کردیا جبکہ 17 زخمی ہو گئے۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، آبادی کو بلااشتعال فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کے دوران افغان بارڈر فورسز نے مارٹر گولوں سمیت بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا۔ پاکستانی سرحدی دستوں کی طرف سے فائرنگ کا مؤثر جواب دیا گیا تاہم اس دوران معصوم افغان شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ واقعے کے بعد پاک افغان سرحد پر واقع بابِ دوستی کو ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر تے ہوئے دوطرفہ تجارت معطل کر دی گئی اور کسٹم ہاؤس کو خالی کر دیا گیا تاہم سوموار کی صبح سرحد دوبارہ کھول دی گئی۔ پاکستان نے معاملے کی سنگینی سے افغان حکام کو آگاہ کر تے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ آئندہ اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے سخت اقدامات کریں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو نے امید ظاہر کی کہ وفاقی حکومت سفارتی سطح پر اس مسئلہ کے فوری اور مؤثر حل کو یقینی بنائے گی۔ ادھر، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے پاک افغان سرحدی شہر چمن میں سرحد پار سے فائرنگ اور راکٹ حملے پر تشویش کا اظہار اور شہریوں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کے جاں بحق اور زخمی ہونے پر دکھ ہے۔ انھوں نے بلوچستان حکومت سے درخواست کی کہ وہ متاثرہ شہریوں کی بھرپور معاونت کرے۔ سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے بھی چمن میں افغان فورسز کی جانب سے پاکستانی شہریوں پر فائرنگ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ زخمی پاکستانی شہریوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔ اپنے مذمتی بیان میں انھوں نے حملے پر افسوس اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک افواج کی خطے میں امن پالیسی کو کمزوری تصور نہ کیا جائے۔
واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ افسوس ناک واقعات دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے مطابق نہیں۔ افغان حکام سے کہا ہے کہ ایسے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ سرحد پر شہریوں کی حفاظت دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے، پاک افغان حکام صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کے لیے رابطے میں ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ مہینے کے دوران بھی ایک ایسے ہی واقعے کے بعد چمن بارڈر کو کئی روز کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت معاملات پر اس طرح توجہ نہیں دے رہی جیسا کہ حالات کا تقاضا ہے، اور بار بار ایسے واقعات کا ہونا دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد سے افغانستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کے لیے اگر کوئی ایک ملک افغانستان کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ افغان حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ امن و سلامتی کا قیام صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کی بھی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، افغانستان عبوری حکومت کو دنیا کا کوئی بھی ملک تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ افغانستان تک امدادی اشیاء پہنچانے کے لیے پاکستان اس وقت ایک پل کا کردار ادا کررہا ہے۔ ایسے واقعات دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کو ناخوشگوار بنائیں گے جس سے پاکستان تو کم متاثر ہوگا تاہم افغانستان کے متاثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہاں تاحال مسائل حکومت کے قابو نہیں آسکے اور قابلِ قیاس مستقبل میں ایسا ہوتا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اندریں حالات، افغانستان عبوری حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات خوشگوار بنانے کے لیے ایسے واقعات کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے اور آئندہ ان کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل تیار کرے۔

ای پیپر-دی نیشن