پی ٹی آئی والے تنخواہ لیتے اسمبلی نہیں جاتے،4دن میں استعفوں کیلئے تیار ہیں:سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر ) سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا پی ٹی آئی کا حق ہے کہ وہ اسمبلی سے استعفے دے یا نہ دے لیکن کیا تحریک انصاف کے لوگ کیا قومی اسمبلی کے رکن ہیں یا نہیں؟۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا تحریک انصاف کے تمام ارکان اسمبلی سے استعفے دے چکے ہیں، کچھ نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کسی حلقے کو بغیر نمائندہ اور اسمبلی کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی ارکان کو سپیکر کے سامنے پیش ہونے کا کہا تھا۔ عمران خان کے وکیل نے کہا جن کے استعفے منظور ہوئے وہ کونسا سپیکر کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سپیکر ایک ساتھ تمام استعفے کیوں منظور نہیں کرتے؟ جس رکن کو مسئلہ ہوگا سپیکر کے فیصلے پر اعتراض کر دے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر سپیکر کو چار دن میں استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی تیار ہے؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت ایسا حکم جاری کرتی ہے تو اس کیلئے مکمل تیار ہیں، پی ٹی آئی تو انتخابات کرانے کا ہی مطالبہ کر رہی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا حضرت ابوبکر نے کہا تھا اگر قانون کے مطابق چلوں تو ہی میرا ساتھ دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا سیاسی معاملے پر عدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اسلام کا بنیادی اصول ہے، غلط کام کو غلط اس وقت ہی کہا جا سکتا ہے جب وہاں موجود ہوا جائے، اسمبلی جانا یا نہ جانا پی ٹی آئی کا سیاسی فیصلہ ہے، اداروں کو فعال کرنا ہوگا، پارلیمان ایک بنیادی ادارہ ہے، بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہوگی یہ بھی سوال ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اسمبلی میں عوام اعتماد کرکے بھیجتے ہیں، ارکان اسمبلی کو اپنی آواز ایوان میں اٹھانی چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آرمی افسران کا احتساب آرمی ایکٹ کے تحت ہو گا، آرمی ایکٹ نیب کے دائرہ کار کو محدود نہیں کر سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آرمی افسران پر آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے نیب قانون نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آرمی افسران کو نیشنل سکیورٹی کے تحت دوران سروس نیب قانون سے تحفظ دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سوال یہ ہے وزیراعظم اور وزیراعلی کو حاصل استثنی افواج کو کیسے دی جا سکتی ہے؟ سول سرونٹس بھی ملک کی خدمت پر مامور ہے، انہیں نیب قانون میں استثنی کیوں نہیں دیا گیا؟۔ اگر آرمی افسر کرپشن کر رہا ہے تو چالیس سال انتظار کریں کہ ریٹائر ہو تو احتساب کیا جائے گا؟ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔ سینٹر شبلی فراز نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے کہا آج نیب ترامیم کیخلاف درخواست کی 17ویں پیشی تھی، میں سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمارے موقف کو تسلی سے سنا۔ نیب ایک مخصوص خاندان کا آلہ کار بن گیا ہے۔ الیکشن اس لئے نہیں کرائے جارہے تاکہ خود کو کرپشن کیسز سے ڈرائی کلین کرسکیں، حالیہ سرویز کے مطابق 62 فیصد نوجوان ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔