ریکارڈ ساز مہنگائی، حکومت عوامی مشکلات و مسائل کا ادراک کرے
ملک میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ نے عوام میں مایوسی اور اضطراب پیدا کر رکھا ہے۔ رواں سال میں ہونے والی مہنگائی نے نئے ریکارڈ قائم کر دئیے ہیں۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء بالخصوص آٹا، مرغی، گوشت، انڈے، دالیں، آلو، پیاز اور ٹماٹر مہنگے ہوئے۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 800 روپے تک مہنگا ہوا۔ زندہ مرغی کا گوشت 110 روپے فی کلو تک مہنگا ہوا اور انڈے 100 روپے فی درجن تک مہنگے ہوئے۔ اسی طرح ڈھائی کلو گھی کا ڈبہ 395 روپے، تازہ دودھ 60 روپے فی کلو، دہی 60 روپے فی کلو، بڑا گوشت ۰بیف) 100 روپے اور چھوٹا گوشت 400 ( مٹن ) روپے فی کلو تک مہنگا ہوا۔ ایک سال میں ٹماٹر کی قیمت میں 110 روپے ، پیاز 210 روپے، آلو 50 روپے فی کلو، چائے کا پیکٹ 163 روپے مہنگا ہوا ہے۔ باسمتی چاول 40 روپے، دال مسور 90 روپے دال مونگ 90 روپے دال ماش 125 روپے اور دال چنا 90 روپے فی کلو تک مہنگی ہوئی۔ مزید براں ایک سال میں لہسن 100 ، ادراک 80 روپے فی کلو جبکہ نمک کا پیکٹ 15 روپے تک مہنگا ہوا۔ یہ اعداد و شمار اس ادارے کی طرف سے مہیا کیے گئے ہیں جو سرکاری انتظام میں کام کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار میں ان اشیاء اور آئمٹز کو شامل نہیں کیا گیا جو روزمرہ استعمال کا حصہ ہیں اور ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ پھل، سبزیاں وغیرہ ، زرعی ادویات، کھاد ، بجلی ، پانی اور گیس کے ریٹس میں اضافہ انکے سوا ہے۔ گویا انسانی جان اور انسانی خون کے علاوہ استعمال کی ہرچیز کی قیمتوں کو پَر لگ چکے ہیں اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا چکی ہیں لیکن عوامی مشکلات کا کوئی ازالہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ موجودہ حکومت تو اقتدار میں آئی ہی اس وعدے کے ساتھ تھی کہ وہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائے گی اور ان کی مالی مشکلات میں معتدبہ کمی لائے گی لیکن ابھی تک حکومت نے اس سمت کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ چنانچہ مہنگائی اور ادویات کی کمیابی حکومتی گورننس پر بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے ۔ حکومت کو عوامی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے مہنگائی کنٹرول کرنے کے ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ ان کی مشکلات میں کمی ہو سکے۔