یارو ! اب بس کرو بہت ہوچکا
اب تو بہت کچھ غلط ہورہا ہے ، اور سیاسی قیادت جو عوام کا خیال رکھنے ، ملک کی معیشت درست کرکے عوام کو سکھ کا سانس دلانے کے سبز باغ دکھاتی ہے ، یہ عمل گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے مگر نفرتوںکے بیچ ، اپنے مفادات کو اولین ترجیح دینے والے مراعات یافتہ طبقوںپر قانونی گرفت صفر فیصد بھی نہ ہونے کی بناءکرپشن پر کوئی کنٹرول نہیں ، قانون صرف اور صرف جو بھی حکومت میں ہو انکے لئے فائدہ مند اور عوام الناس کیلئے ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے ، اسکی وجہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈران اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں گذشتہ برسوں سے جائزہ رپورٹس مرتب کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے والوں کا گمان ہے کہ ان کے سروے کے نتائج کو مختلف سرکاری محکمے اصلاحات کے نفاذ کے لیے استعمال کریں گے جس سے بدعنوانی کم کرنے اور عوام کی زندگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی مگر زمینی حقائق اس امکان کے برعکس اس تصور کو راسخ کئے ہیں کہ پاکستان میں عمل تطہیر جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ جو شخص پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے دعوے پر گذشتہ ساڑھے تین برس اس ملک پر حکمران رہا بدقسمتی سے بدترین حکمرانی کی وجہ سے اقتدار سے نکالا گیا تو اب اس کے دور کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سامنے آرہی ہیں ۔پاکستان میں کرپشن کا بنیادی سبب بارسوخ لوگوں کے لمبے ہاتھ ہیںجو عدلیہ،پولیس،شہری انتظامیہ اور ملکی و صوبائی سطح پر ہر جگہ اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔جب تک بااثر لوگوں کی مداخلت ختم نہیں ہوگی اداروں سے بدعنوانی کا خاتمہ دیوانے کا خواب ہی رہے گا! سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر کسی پر بھی الزام ٹھیک ہیں تو اسے کیفر کردار تک کون پہنچائےگا، قانو ن اور آئین کی کتابوں میں سب کچھ لکھا مگر موٹے چشمے وہ دیکھ یا پڑھ نہیں سکتے ۔ سیاسی حکومتیں©© غیر آئینی طاقتوں کے ذریعے عوام پر تھوپیںگئیں ، 2022 ءکا سال اچھا تھا جب سپہ سالار نے یہ کہا کہ افواج پاکستان نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ سیاسی حکومتوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرینگی ، بہت بہتر ۔۔ یہ سیاسی لوگ ہی اداروں کر مجبور کرتے رہے ہیںکہ ہماری مدد کرو۔ بہت ہی واضح انداز میں 2014 سے لیکر 2018 ءاورکچھ بعد تک ایسا کیا گیا ، اس قبل بھی ایسا ہوتارہا اسکا کوئی بدل نہیں۔ مگر 2018 ءمیںجنہیں عادت پڑ گئی تھی ،وہ پھر اسی راستے پر لانے کی کوشش کررہے ہیں جس مقتدر ادارے کو سربراہ کو اپنی حکومت میں تبدیل کیاگیا جب انہوںنے حکومت کی کرپشن کے ثبوت وزیر اعظم کو دکھائے تو وزیر اعظم نے شنید ہے کہ کہا اب آج انکے سپہ سالار بننے پر انکی اچانک تعریفیں شروع کہ نہایت مذہبی انسان ہیں ، میں نے تعریف سنی ہے، یہ تعریف نہ جانے پہلے کیوںنہ سنی ؟سابقہ سپہ سلار کودوران حکومت اپنی حکومت کا ان داتا کہا گیا آج ان پر بے شمار بہتان تراشیاں نہ صرف خود بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ۔ بحیثیت قوم اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو مضبوط فوج، مضبوط جمہوریت اور مضبوط سیاسی جماعتیں درکار ہیں، یہ سب ہونگی تو کوئی بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑسکتا لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جنرل باجوہ صاحب نے جس روایت کا آغاز کیا ہے، وہ برقرار رہے تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان بہت جلدترقی کی منازل طے کرتا نظر آئیگا، زمینی حقیقت کو نظر انداز کرنا کسی صورت مناسب نہیں کہ ملک ہیجان اور مشکل ترین معاشی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔ سیاست دانوں کا اصل کام ملکی مسائل کا حل نکالنا اور ناممکنات میں سے ممکنات کو تلاش کرنا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہبر میاں نواز شریف کا قریبی معتمد سمجھا جاتا ہے اور یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ میاں نواز شریف کی اجازت و رہنمائی کے بغیر انہوں نے صدر عارف علوی سے مذکورہ نوعیت کی ملاقاتیں کی ہوں گی۔افہام تفہیم کی پالیسی کسی جانب سے بھی ہو نہایت اچھی ہے ۔ادھر عمران خان کے مخالف بھی لاحاصل اور غ یر سنجیدہ باتیں کر رہے ہیں اگر ملک میں کوئی قانون ہے تو اس پر عمل کرنے کی ہمت کریں وہ کسی کو حرام یا حرام ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اس پورے معاملے میں اس کا کیا قصور ہے۔ ادھر وزیر اعظم کو اس بحث میں شامل نہیں ہونا چاہیے، دیگر اتحادی جماعتیں ہیں وہ بولیں وزیر اعظم کا توشہ خانہ کی گھڑیوں کی فروخت پر الزام تو ٹھیک ہے مگر اسے مذہبی ٹچ دینا درست نہیں۔ گھڑی کا معاملہ اخلاقی ہے اگر کچھ لوگ اخلاقی پہلو کو بھی دریا میں پھینکنا چاہتے ہیں تو پھر قانون یہ بھی پوچھ رہا ہے کہ جن پیسوں سے گھڑی توشہ خانے سے خریدی وہ پیسے کہاں سے آئے ، کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ چونکہ توشہ خانہ سے ہاتھ سب نے رنگے ہیں اسلئے کوئی قانون ایسا ہو توشہ خانہ کی لوٹ مار جس نے بھی نے کی ہو وہ قانون کی گرفت میںآئے ورنہ ©” میری گھڑی ، میر ی مرضی والا معاملہ سب کے لئے ہو۔
٭....٭....٭