قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور کی گولڈن جوبلی
آج سے تقریباً پچاس سال پہلے جہاںعمارت کا گمان تک نہ تھا اور ہمیں آنے جانے کےلئے کوئی ٹرانسپورٹ بھی میسر تک نہ تھی ، آج وہیںگولڈن جوبلی کے موقع پرایک دیو ہیکل عمارت کو دیکھ کر خوشی سے دل بر آیا۔ بلاشک و شبہ گورنمنٹ کا اس میڈکل کالج کا معیار پہلے دن سے میرٹ پر تھا ، اور کوئی سیلف فنانس کا تصور نہ تھا، آج بھی پہلے دن کی طرح اس کالج کا معیار صرف میرٹ ہی ہے۔ پہلے بھی دو سو ایکٹروں پر محیط جنوبی پنجاب کے اس کالج سے متصل ہسپتال جسے بہاول وکٹوریہ ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے کی عمارت پنجاب کے میو ہسپتال کے بعد سب سے بڑے ہسپتال کی تھی، لیکن آج دل یا کارڈیالوجی کا تعمیر شدہ ایک بہت بڑا بلاک تسکین قلب کا باعث پایا۔آج کی موجودہ خاتون پرنسپل جن کو 31 ویں پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل ہے، محترمہ صوفیہ فرخ جن کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے دوران تحقیق کارکردگی کو اعلیٰ درجے کاپایا ۔ انکی ترجیحات میں گائنی اور ایمرجنسی کے شعبوں کی ترقی کو پایا کیونکہ اسی ہسپتال نے جنوبی پنجاب کی تمام آبادی کو چوبیس گھنٹے کےلئے ہر طرح کے میڈیکل ایمرجنسی کیسز کی ذمہ داری اٹھانی ہے ہماری دعا ہے کہ حلیم طبع پرنسپل صاحبہ دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے قرب وجوار پر نظر رکھیںاس کالج کے ایک سابق ڈاکٹر زبیر جو ان کے شوہر بھی ہیں اور اب ایک ریٹائر سرجن ہیں کی بھی اس کالج کی ترقی میں دلچسپی اور کاوش کو راقم نے اس فنکشن کے دوران بھی محسوس کیا۔ڈاکڑ شاہین، زیدی صاحب اور کئی دوسرے احباب جن کے ناموں سے میں واقف نہیں، وہ بھی خاصے مصروف کار دیکھے ڈاکٹر خفیظ بھی ملے جو ہم سے دو بیچ پیچھے ہوا کر تے تھے ان کی خدمات کو بھی کالج ہذا کو بطور ایک ایکسپرٹ کے استعمال کرسکتا ہے۔ ان محترمہ سے پہلے ریگولر پرنسپلز سولہ کی تعداد میں رہے ہیں جن میں سب سے طویل عرصہ کےلئے پرنسپل ڈاکٹر اقبال تھے جو پندرہ سال تک رہے۔ان کا عہد ان کے اوپر کچھ میرٹ کی خلاف ورزیوں پر اختتام پذیر ہوا تھا جو یقینا قابل رشک نہیں تھا۔ان سے پہلے آنےوالے بانی پرنسپل سید علمدار حسین جو بہت تھوڑی مدت کےلئے مقرر ہوے اور جلد ہی ریٹائر ہوئے، کے بعد ڈاکٹر نواب صاحب کے دور کو کالج کے میڈیکل طلبا اچھا قرار دیتے ہیں لیکن وہ بھی بدقسمتی سے جلد ہی اس ادارے سے ٹرانسفر کر دئیے گئے تھے جس کے بعد پرنسپل ڈاکٹر فتح خان صاحب اور کچھ دیر کےلئے شفیق قابل محنتی سرجن عباس عسکری بھی بطور پرنسپل خدمات انجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر بابر صاحب جو ہمارے فارماکالوجی کے استاد تھے وہ بھی کچھ دیر تک کالج ہذا کے پرنسپل رہے ۔ ڈاکٹر مظہر عتیق کا بطور پرنسپل اچھا دورتھا وہ خود بھی ایک ماہر فزیشن تھے اور اصولوں پر کم ہی سمجھوتا کرنےوالے تھے ۔ راقم کو انکے ساتھ لاہور جنرل ہسپتال میں انیس سو اٹھتر میں جنرل نجیب کی سربراہی میں وارڈ نمبرپانچ میں کام کرنے کا تجربہ ایک اچھی یاد ہے۔ راقم نے ان کو اصول پرست شخصیت پایا ۔ میرے کلاس فیلوڈاکٹر اعجاز شاہ بھی بطور پرنسپل ایک سخت گیر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں ان کے دور میں سول ہسپتال کے علاوہ دل وارڈ اور دوسرے شعبہ جات میں اصلاحات کی گئیں لیکن طلبا کے ساتھ کچھ مسائل پر ان کی چپقلش نے انکے دور کو متنازعہ کر دیا تھا۔ اجلال حیدر زیدی کا دور بھی کالج کی ترقی کیلئے اچھاقرار دیا جاتا ہے۔ اس سرسری جائزے سے یہ امیدہونے چلی ہے کہ یہ کالج جلد ایک میڈکل یونیورسٹی کا روپ اختیار کر لے گا۔ تمام اہم شعبہ جات بشمول ریڈیولاجی متعلقہ پروفیسر صاحبان کے تحت کام کر رہے ہیں۔اگرچہ اس سرسری جائزے کے بعد ان پر آئندہ جائزے میں کوتاہیاں بھی زیر بحث آئیں گی۔ ہاں اس فنکشن کے موقع پر جب راقم اپنے پرانے ہاسٹلز اقبال ہال ، فیصل ہال گیا تو ان کی عمارتوں کو مخدوش حالت میں پایا ایسا لگا کے پرانی عمارتوں جو کے کسی کالج کا اثاثہ ہوتی ہیں ان کی مرمت کی طرف کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ایم ایس کی پرنی عمارت بھی مخدوش خالت میں پائی۔ کالج کی موجودہ انتظامیہ کو اس پر غور کر نا چاہیے کہ بے شک نئی بلڈنگز بنائی جائیں لیکن پرانی عمارتوں کو گلنے سڑنے نہ دیں۔ کالج ہذا میں اگر مختلف شعبوں میں تحقیقی سیل بنائے جائیں تو یہ میڈیکل کے شعبے کی صحیح خدمت ہو گی اور ہمارے ملک میں اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے کی روایت کی نفی ہو گی۔ذاتی پذیرائی صرف اس وقت کار آمد ہو سکتی ہے جب تک کسی کام اور شعبے میں لگن جذبے خلوص سے کام نہ لیا جاوے۔ہر بڑے عہدے والے کو بھی ایک عام ورکر کی طرح جواب دہ ہونا چاہیے ۔ تبھی ادارے بھی بڑے ہوں گے اور ترقی و تحقیق میں نام کما پائیں گے۔