انتخابات یا معیشت، فیصلہ عوام کا!
تحریک انصاف کے ممبران صوبائی اسمبلی کی اکثریت صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں انتخابات کی تیاری کیلئے وقت چاہیے۔ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے پنجاب کے ایم پی ایز کو فنڈز مہیا کیے ہیں تاکہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کروا سکیں اور عوام کا اعتماد حاصل کر سکیں. پرویز الٰہی خود اور تحریک انصاف کے صوبائی ممبران عمران خان کے اس فیصلے کو درست نہیں سمجھتے. یہ ممبران اسمبلی اپنے گلے شکوے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے تو کرتے ہیں مگر جب سابق وزیراعظم عمران خان کے سامنے جاتے ہیں تو انکی زبان بند ہو جاتی ہے اور خان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں. عمران خان آجکل اپنے تمام ممبران پنجاب اسمبلی کو باری باری مل رہے ہیں اور ان سے اسمبلی توڑنے پر رائے لے رہے ہیں. ایم پی ایز کو یہ بھی ڈر ہے کہ اگر انہوں نے عمران خان کے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کی مخالفت کی تو شاید انھیں آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ نہیں مل سکے گی. پرویز الٰہی تو یہ بر ملا کہہ چکے ہیں کہ پنجاب حکومت مارچ تک چلنی چاہیے اور اس بات کا اظہار عمران خان خود بھی اپنے ایک انٹرویو میں کر چکے ہیں. یار دوستوں کا کہنا ہے کہ عمران خان پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں توڑنے پر بضد ہیں اور وہ ہر حال میں یہ انتہائی قدم اٹھائیں گے. سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان اگر اسمبلیوں کو توڑ کر انتخابات میں جاتے ہیں تو انکی عوامی مقبولیت کی بنا پر وہ انتخابات آسانی سے جیت سکتے ہیں لیکن اگر میاں نواز شریف اسی دوران وطن واپس آتے ہیں اور کوئی نیا بیانیہ لے کر عوام میں جاتے ہیں تو آسانی سے عمران خان کو جیتنے نہیں دیں گے۔ انکے مطابق انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا جھکاو¿ بہت اہمیت کا حامل ہے، تحریک انصاف جس انداز میں اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تو اس سے انھیں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ یا جھکاو نہیں ملے گا اور ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار رہا ہے۔انہوں نے ایک اور اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا. انکے مطابق عمران خان کو ابھی تو پنجاب حکومت کا سایہ میسر ہے جب سے وہ زخمی ہوئے ہیں وہ زمان پارک میں ہیں اور بنی گالہ نہیں گئے. اس لئے اگر وہ اسمبلیاں توڑتے ہیں تو انکی حکومت نہ پنجاب میں رہے گی اور نہ خیبر پختون خواہ میں. نگران حکومت میں انکے خلاف ایکشن بھی ہو سکتا ہے۔ میں ان کی باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں انہوں نے حقائق پر مبنی تجزیہ کیا ہے۔لیکن ایک بات اور ہے کہ اگر تین ماہ کے لئے وفاقی حکومت یا نگران حکومت عمران خان کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھاتے ہیں تو اس سے خان صاحب کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گا وہ مظلوم بن جائیں گے اور پنجاب، خیبر پختون خواہ میں بھاری اکثریت حاصل کر سکیں گے. دوسری جانب وفاقی حکومت ذرا بھی لچک دکھانے کے موڈ میں نہیں ہے بلکہ اب تو یہ خبریں بھی ہیں کہ حکومت معاشی ایمرجنسی لگا کر عام انتخابات 2024 میں کروانا چاہتی ہے۔لیکن ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تحریک انصاف تو جلد از جلد انتخابات چاہتی ہے اسی لئے عمران خان نے اسمبلی توڑنے انتہائی قدم اٹھانے کا اعلان کیا۔ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی اب اس کشمکش کا شکار ہیں کہ وہ عمران خان کی بات مان کر اقتدار چھوڑ دیں یا عمران خان کو چھوڑ کر پی ڈی ایم کے ساتھ مل جائیں۔ عمران خان کو چھوڑتے ہیں تو وقتی طور پر اقتدار رہے گا اور اگر عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں تو انتخابات میں سر بلند کر کے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری جوڑ تور کی سیاست پر عمل کرتے ہوئے پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت بنانا چاہتے ہیں جو کہ اتنا آسان نہیں ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ عمران خان اسمبلیوں کو توڑنے کا وعدہ پورا کریں وہ اور انکی جماعت عوام میں جا کر انکا مقابلہ کرینگے، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی عمران خان کو چیلنج دے چکے ہیں کہ انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیں گے اور تحریک انصاف کو شکست دیں گے۔قارئین گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ان حالات میں انتخابات ممکن نظر نہیں آتے۔
ماہرین کیمطابق پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے اب تو معیشت دوست ممالک کی امداد کے سہارے چل رہی ہے۔ ڈالر کو کنٹرول کرنےوالے اسحاق ڈار ایٹمی اثاثوں کو گروی رکھنے کا کہہ چکے ہیں۔ ایسے میں انتخابات کا عمل کیسے ہو گا۔ عوام کو کھانے کیلئے روٹی اور گھر کے اخراجات چلانے کیلئے روزگار چاہیے۔ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات کب ہوں۔ اگر معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے معاشی ایمرجنسی لگتی ہے اور عوام کو روزگار ملتا ہے اور اشیائے ضرورت سستی ہوتی ہیں تو عوام انتخابات کی ایک سال مزید توسیع قبول کرنے پر آمادہ ہونگے۔اور اگر جلد انتخابات سے عمران خان ملکی معیشت کو مضبوط کرنے اور عوامی ریلیف کو کوئی کار آمد پلان دے سکتے ہیں تو عوام کو یہ زیادہ قابل قبول ہو گا۔ بشرطیکہ اب کی بار عوام کو ٹرک کی بتی پیچھے نہ لگایا جائے۔