معیشت کی فکر نہیں منفی سیاست کا بازار گرم
۔ تحریر
فرحان انجم ملغانی
فکر و عمل کی سطح پر یک جہتی ہماری قومی ضرورت ہے اور انفرادی سوچ اور طرز عمل کی بجائے قومی سوچ اپنانے اور یک جہتی کی جتنی ضرورت آج ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر اسکے باوجود ہماری سیاسی لیڈر شپ اور تمام سٹیک ہولڈرز نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے۔ ملک اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ ڈالر اونچی پروازکے باوجود نایاب اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے مہنگائی اور مہنگائی کے بعد ریکارڈ مہنگائی کا ایک نیا طوفان برپا ہونے جا رہا ہے مگر اسکے باوجود ملک میں اسوقت منفی سیاست کا بازار خوب گرم ہے۔ وفاق میں اپوزیشن اور دو صوبوں کی حکمران جماعت پی ٹی آئی عام انتخابات کے لئے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کے مختلف ٹائم فریم دے رہی ہے ، دوسری جانب پی ڈی ایم کی حکومت بھی جسے ملک اصل مسائل میں اس وقت سرفہرست معیشت کو درپیش چیلنج ہے، کو ایڈریس کرنے کی بجائے مسلسل اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور الزام تراشیوں میں مصروف ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ، کرپٹ اور ملک دشمن ثابت کرنے کیلئے محاذ آرائی کی سیاست کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ صبح شام حکومتی وزراء اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنما میڈیا پر ایک دوسرے کو چور ڈاکو قرار دینے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ملکی مسائل اور موجودہ بدترین معاشی بحران کا ذمہ دار بھی ایک دوسرے کو قرار دیا جا رہا ہے کسی ایک طرف سے بھی پاکستان کی بقاء و سلامتی اور موجودہ مسائل کے حل کیلئے مل بیٹھنے کی بات سامنے نہیں آرہی حالانکہ اس وقت ملک میں غیر اعلانیہ معاشی ایمرجنسی کی کیفیت ہے ایل سیز بند ہونے کی وجہ سے انسانی زندگی بچانے والی ادویہ تک نایاب ہو رہی ہیں ادویہ اور سرجیکل آلات کے نرخوں میں 40 سے 60 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر کی اونچی اڑان، ادویات کے بعد سرجیکل آلات کی قیمتوں میں بھی تیس سے ساٹھ فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے، میڈیکل سٹور مالکان کے مطابق سرجری کا زیادہ ترسامان امپورٹ کروایا جاتا ہے اور ڈالر کی قیمت کے ساتھ ساتھ انکے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ایک ماہ قبل وینٹی لیٹر پر موجود مریضوں کے لئے استعمال ہونے والے ‘‘بریدنگ سرکٹ’’ کی قیمت ایک ہزار پچاس سے بڑھ کر بارہ سو روپے تک جا پہنچی، ‘‘ٹرانسڈیوسر’’ کی قیمت چھبیس سو روپے سے بڑھ کر اکتیس سو روپے ہو گئی، شریانوں میں لگنے والے ‘‘ٹرپل لیومن’’ کی قیمت چار ہزار سے بڑھ کر پینسٹھ سو تک جا پہنچی ہے اسی طرح بائیوپسی گن کی قیمت سات سو روپے اضافہ کے بعد پچاسی سو روپے ، ڈائلیسز میں استعمال ہونے والا ٹو لیومن پچپن سو سے بڑھ کر باسٹھ سو کا ہو گیا ، پیٹ سے پانی نکالنے میں مددگار پکٹل کیتھیڈریل کی قیمت بائیس ہزار سے بڑھ کر چھبیس ہزار تک جا پہنچی ہے گردوں سے پتھری نکالنے والا ڈی جے سٹنٹ چھیتر سو روپے سے بڑھ کر چھیانوے سو روپے تک جا پہنچا ، بچوں کی شریانوں کے لئے استعمال ہونے والا سنگل لیومن دو ہزار سے بڑھ کر تین ہزار کا ہو گیا ، دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ ایل پی نیڈل، گائیڈ وائر، گلوز اور گازز کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا میڈیکل سٹور مالکان کے مطابق ابھی چیزیں مزید مہنگی ہونے کے امکانات ہیں یہ تمام چیزیں باہر سے امپورٹ کروائی جاتی ہیں ساری ٹریڈ ڈالر میں ہوتی ہے جتنا ڈالر بڑھے گا اتنی ہی یہ چیزیں بھی بڑھیں گی۔
شہریوں کا ان مشکلات پر ایک ہی مطالبہ ہے حکومت علاج معالجہ میں استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں کمی کے لئے اقدامات کرے ہر چیز کے ریٹ بڑھ رہے ہیں کوئی انکو پوچھنے والا نہیں ہے۔اس حوالہ سے کیمسٹ ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق امپورٹ پر پاپندی اور چیک و بیلنس کا نظام نا ہونے کیوجہ سے ادویہ کے نرخوں میں اضافہ ہورہاہے اس مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے باعث مہنگائی کا نیا طوفان آرہا ہے جس سے عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہا ہے ،ادرہ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے، 20 کلو آٹے کا تھیلا 800 روپے مہنگا، اڑھائی کلو گھی کا ڈبہ 395، تازہ دودھ 60 روپے لٹر،چھوٹا گوشت 400 روپے کلو، مرغی کے گوشت 110 روپے کلو اور انڈے 100 روپے درجن مہنگے ہوئے، دالیں ،سبیاں اور پھل بھی کئی گنا مہنگے ہوئے جس سے عام آدمی کی قوت خرید میں کمی آئی۔موجودہ مالی بحران نے نا صرف تاجروں اور چھوٹے کاروباری حضرات کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ بڑے بڑے نجی و قومی ادارے بحران کا شکار ہوگئے ہیں حکومت کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر آگئے ہیں گیس کا بحران بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس پر بھی صوبہ سندھ سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے سیاست کی جا رہی ہے کہ حکومت کے پاس بھی اس بحران سے نکلنے کے لئے کوئی حل نہیں وزیراعظم پاکستان پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں انہیں سمجھ نہیں آرہی نہیں کہ پیسے کہاں سے آئے مگر اس سنجیدہ صورت حال کے باوجود الزام تراشیوں اور پوائنٹ سکورنگ کی سیاست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آخر یہ کیوں نہیں سوچا جا رہا کہ یہ ملک جسے ہم نے طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا یہ کیوں ابتک یکجہتی کے رشتے میں پیوست ہو کر ترقی کی راہ پر نہیں چل سکا ہے ہم اب تک ایک قومی بیانیہ کیوں تشکیل نہیں دے سکے آخر اب تک ہم سیاسی معاشرتی اور تہذیبی اداروں کو مستحکم و مضبوط بنانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکے۔ ایسا عدل و انصاف کا نظام کیوں کر وضع نہیں کیا جاسکا جس میں غریب اور امیر طاقتور اور کمزور کے لیے ایک ہی معیار ہو اس کا علاج صرف یہ ہے کہ ہم قومی سوچ کے ساتھ ملک و قوم کے چھوٹے بڑے تمام مسائل پر غور کریں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسی مسئلہ کے حل کے لیے ارشاد فرمایا کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔
خطہ جنوبی پنجاب کو مختلف قسم کی زرعی اجناس کے باعث پاکستان کی فوڈ باسکٹ قرار دیا جاتا ہے مگر حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث یہاں کا کاشتکار شدید پریشانی کا شکار ہیں، زرعی مداخل مہنگی ہونے کے باعث کاشتکار معاشی مسائل کا شکار ہیں، یوریا کھاد کا بحران بھی عروج پر ہے اور اس کی بلیک میں فروخت کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات دکھائی نہیں دے رہے۔ سیلاب کے باعث سندھ کے تقریبا پچاس فیصد رقبہ پر گندم کی کاشت نہیں ہو سکی اور پنجاب میں گنے کرشنگ سیزن تاخیر کا شکار ہونے کے باعث یہاں بھی گندم کی کاشت کے رقبے میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اس صورتحال کے پیش نظر مستقبل میں غذائی بحران کا بھی خدشہ منڈلارہا ہے کیونکہ اس وقت ناقص حکومتی منصوبہ بندی کے باعث اہم فصلیں گندم اور گنا شدید پیداواری کمی کا شکار ہیں مذکورہ تمام تر صورتحال کے باعث ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور الزام تراشیوں کی سیاست کو پس پشت ڈال کر تمام سیاسی جماعتوں کو قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی صورتحال میں بہتری ناممکن ہے۔