• news

ڈالر کی افغانستان سمگلنگ رکنے تک قیمت میں کمی ممکن نہیں: ملک بوستان 


کراچی( نوائے وقت رپورٹ) پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک بوستان کے مطابق پاکستان کی اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں افغانستان میں ڈالر کی قیمت 20 روپے زیادہ ہے اور اس لیے بہت بڑی مقدار میں ڈالر سرحد پار جا رہا ہے۔اگر حکومت یہ طے کرلے کہ ہر صورت میں ڈالر کا ریٹ نیچے لانا ہے تو کوئی طاقت ریٹ نیچے لانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ کرنسی ڈیلرز کی تنظیم ’پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن‘ کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا ہے حکومتی اعلانات کے باوجود پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت نہ گرنے کی بڑی وجہ ڈالر کی افغانستان سمگلنگ اور دوست ممالک سے قرض نہ ملنا ہیں۔ ملک بوستان نے کہا افغانستان پر تاحال پابندیاں ہیں اور وہاں ڈالر کا کوئی اور ذریعہ نہیں اور ان کی تجارت مکمل طور پر ڈالر سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں افغانستان میں ڈالر کی قیمت 20 روپے زیادہ ہے اور اس لیے بہت بڑی تعداد میں امریکی ڈالرز غیرقانونی طریقے سے افغانستان جا رہے ہیں۔ڈالر کی افغانستان سمگلنگ پر مکمل قابو پانے کے علاوہ افغانستان کی تجارت افغانی کرنسی یا پاکستانی روپے میں کرنے سے ڈالر کی قیمت نیچے لائی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں کمی نہ ہونے کا ذمہ دار بیرونی ممالک سے بذریعہ آفیشل چینل آنے والی رقوم کے سرکاری طریقہ کار میں انتہائی سختی کو قرار دیا ہے۔حکومت نے حالیہ عرصے کے دوران بیرونی ممالک سے بینکوں کے ذریعے آنے والی رقوم پر اتنی سختی کردی ہے کہ اس کے مقابل ’گرے مارکیٹ‘ یا ہنڈی حوالہ کا کام تیز ہوگیا ہے، جہاں اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 20 سے 25 روپے زیادہ ہے، تو لوگ جب گرے مارکیٹ کا ستعمال کریں گے اور ڈالر موجود نہیں ہوگا تو ریٹ کیسے نیچے لایا جاکستا ہے؟‘اگر حکومت 80 رکنی کابینہ اور سینکڑوں ارکان پارلیمنٹ کے غیر ملکی دوروں، الاو¿نسز اور مہنگی گاڑیوں سمیت دیگر اخراجات کو کم کرے تو ڈالر کا ریٹ مستقل طور پر نیچے آسکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن