• news

افغان فورسز کی پاکستان کے خلاف دوبارہ جارحیت اور  چیئرمین سینٹ کمیٹی کے افغانستان کے ساتھ تعلقات پر تحفظات

افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں اور افغان فورسز کے پاکستان کی سرزمین پر حملوں کیخلاف پاکستان کے سخت احتجاج‘ افغان ناظم الامور کی دفتر خارجہ میں طلبی اور کابل انتظامیہ کی آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے دینے کی باربار کی یقین دہانیوں کے باوجود افغان فورسز کی پاکستان کیخلاف جارحیت کا سلسلہ رک نہیں سکا اور گزشتہ روز بھی افغان فورسز کی جانب سے چمن (بلوچستان) میں پاکستان کی شہری آبادی پر گولے فائر کئے گئے جبکہ کئی گھروں پر افغانستان کی جانب سے فائر ہونے والی گولیاں بھی گری ہیں جس کے باعث ایک شہری شہید اور 15 افراد زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کے ان واقعات کے بعد ضلع بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی جبکہ کشیدگی کے باعث بارڈر پر آمدورفت معطل ہے۔ لیویز حکام کے مطابق افغان فورسز نے چمن بارڈر پر پاکستان کی جانب مارٹر گولے داغے ہیں۔ 
پاکستان کی مسلح افواج نے افغان فورسز کی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا ہے۔ سکیورٹی حکام کے مطابق پاک افغان بارڈر کلی نشیخ تعل محمد میں پاکستانی اور افغان بارڈر فورسز کے درمیان سخت جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں افغان فورسز کی جانب سے شہری آبادیوں کو دوبارہ نشانہ بنایا گیا۔ اسکے جواب میں پاکستان کی فورسز نے بھی بھرپور کارروائی کرتے ہوئے بھارتی توپ خانہ کا استعمال کیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق ہتھیاروں کے استعمال کے باعث ہونیوالے دھماکوں کی آوازیں چمن شہر میں سنی جا رہی ہیں جس سے عوام میں خوف و ہراس پیدا ہو رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس ماہ گیارہ دسمبر کی شب بھی افغان بارڈر فورسز کی جانب سے چمن میں بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے پانچ شہری شہید اور 17 زخمی ہوئے تھے۔ گزشتہ روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے کابل میں پاکستانی ناظم الامور پر قاتلانہ حملے اور افغان بارڈر فورسز کی جانب سے چمن میں کی گئی فائرنگ کے واقعات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم افغانستان کے ترجمان بنے پھرتے ہیں اور وہ پاکستان کیخلاف بندوق اٹھانے سے گریز نہیں کرتا۔ ہمیں افغانستان بارے اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ انکے بقول بھارت ہمارا دشمن ہے مگر اس سے اتنی جھڑپیں نہیں ہوتیں جتنی افغانستان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ 
یہ امر واقعہ ہے کہ پاکستان کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی امریکی نیٹو فورسز کیخلاف صف آراء طالبان گروپوں اور امریکہ کے مابین امن مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی تھی جبکہ یہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور امریکہ نے اپنی باقیماندہ تمام افواج اور اپنے شہریوں کو گزشتہ سال متعینہ شیڈول سے بھی پہلے افغانستان سے نکال لیا جس کے بعد طالبان کیلئے میدان خالی ہو گیا اور انہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے کابل تک دوبارہ رسائی حاصل کرلی۔ نتیجتاً افغان کٹھ پتلی صدر اشرف غنی اور کابل انتظامیہ کے دوسرے حکام بوریا بستر سمیٹ کر افغانستان سے فرار ہو گئے اور طالبان کو کابل کے اقتدار میں واپسی کا آسان موقع مل گیا۔ اسکے بعد اقوام عالم کی جانب سے کابل انتظامیہ کے مقاطعہ اور اسکے غیرملکی اکائونٹس منجمد ہونے کے باعث افغانستان کو جن سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ ان سے نکلنے کیلئے بھی پاکستان نے افغانستان کی بھرپور معاونت کی اور کابل انتظامیہ کیلئے عالمی قیادتوں کو اپنے رویے میں نرمی لانے پر قائل کیا۔ توقع یہی تھی کہ کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد افغانستان کی بے لوث وکالت کرنے پر طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنا شروع ہو جائیں گے مگر طالبان کی عبوری حکومت کے وزراء اور اہم حکام کے علاوہ طالبان لیڈران کی جانب سے بھی پاکستان کے ساتھ مخاصمت والا رویہ اختیار کرلیا گیا اور تضحیک آمیز لہجے میں اسے باور کرایا جانے لگا کہ وہ اپنے اندرونی خلفشار پر توجہ دے‘ ہمیں اسکی معاونت کی قطعاً ضرورت نہیں۔ طالبان انتہاء پسندوں نے کابل حکومت کی تبدیلی کے بعد طورخم اور چمن سرحدوں پر پاکستان کیخلاف ہنگامہ آرائی اور سخت نعرے بازی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور پھر پاکستان کے جھنڈوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ اکھاڑنا شروع کر دی جس سے اس امر کا ہی ٹھوس عندیہ ملا کہ طالبان حکومت پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھانا چاہتی۔ 
اسی تناظر میں افغانستان میں پاکستانی باشندوں اور سفارتخانہ پر حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جبکہ افغان سرحد کی جانب سے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا جنہوں نے ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص خیبر پی کے اور بلوچستان میں تخریب کاری‘ خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا ارتکاب شروع کر دیا۔ اس سے پاکستان میں انتشار اور عدم استحکام کی فضا پیدا ہوئی جو درحقیقت پاکستان کے ازلی مکار دشمن بھارت کا ایجنڈا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ کابل کی طالبان حکومت بھی سابق افغان حکمرانوں کی طرح پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے پر ہی کام کر رہی ہے۔ دو ہفتے قبل کابل میں پاکستان کے سفارتخانہ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا جس میں پاکستان کے ناظم الامور بال بال بچے اور اب افغان بارڈر فورسز کی جانب سے پاکستان کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر فائرنگ اور مارٹر گولے پھینکنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے جو پاکستان کے سخت احتجاج اور وارننگ کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہا تو اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ کابل انتظامیہ دانستہ طور پر دہشت گردوں اور بارڈر فورسز کو شہ دیکر انہیں پاکستان کے اندر حملہ آور ہونے کے مواقع فراہم کر رہی ہے جس کا مقصد پاکستان اور پورے خطے میں امن و امان کی صورتحال خراب کئے رکھنا ہی ہے تاکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اپریشنل نہ ہو سکے۔ اسے سبوتاژ کرنا درحقیقت بھارت اور امریکہ کے اہداف ہیں جو پورے کرنے کیلئے طالبان انکے معاون بنے نظر آتے ہیں۔ 
یہ صورتحال یقیناً ہمارے لئے لمحۂ فکریہ اور ہماری سلامتی و خودمختاری کیلئے بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت تو ایسے مواقع کی تلاش میں ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر غیرمستحکم ہو اور اسے پاکستان پر ماضی جیسا شب خون مارنے کا موقع میسر آئے جس کیلئے بھارت کی ہندو انتہاء پسند مودی سرکار مکمل تیاری کئے بیٹھی ہے۔ افغانستان سے آنیوالے دہشت گرد اور افغان بارڈر فورسز پاکستان کی سرزمین پر پے در پے حملوں سے درحقیقت اسکی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کر رہی ہیں اس لئے اب ان کارروائیوں پر کابل انتظامیہ سے محض رسمی احتجاج سے آگے بڑھ کر افغانستان کو مؤثر انداز میں شٹ اپ کال دینا اور اسکے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی جس کا تقاضا سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین کی جانب سے کیا گیا ہے۔ بے شک علاقائی امن و امان ہماری ضرورت ہے مگر ملک کی بقاء و سلامتی پر تو کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ 

ای پیپر-دی نیشن