• news

مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک


مشرقی پاکستان اور بنگلادیش کے درمیان سیاسی جمہوری تعلق 24 سال تک قائم رہا۔ یہ رشتہ کیوں ٹوٹا اس پر سینکڑوں کتب اور آرٹیکل لکھے جا چکے ہیں۔ 1940 ء کی قرار داد پاکستان میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ پاکستان میں شامل ہونے والے صوبوں کو صوبائی خودمختاری دی جائے گی۔ 
پاکستان سیاسی جمہوری تحریک کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا۔ قیام پاکستان میں سول ملٹری بیوروکریسی کا کوئی کرادر نہیں تھا۔ افسوس آزادی کے بعد سیاسی جمہوری رشتے کو مضبوط بنانے کی بجائے اسے کمزور کیا گیا۔قرارداد پاکستان کے مطابق مشرقی پاکستان کو صوبائی خودمختاری نہ دی گئی۔ بنگالی زبان کو اردو زبان کے ساتھ قومی زبان کا درجہ نہ دے کر بنگال میں ہندو لابی کو بنگلہ نیشنلزم کو ابھارنے کا موقع دیا گیا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو توڑ کر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان تعلق پر کاری ضرب لگائی گئی۔ 
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا قیام پاکستان کے بعد اقتدار کی سیاست میں کھو کر سیاسی و جمہوری طور پر کمزور ہو گئی اور 1950 کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے صوبائی انتخابات ہار گئی۔جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کی آشیرباد سے پاکستان پر مارشل لائ￿  نافذ کرکے مشرقی پاکستان کے ساتھ سیاسی و جمہوری تعلق کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ سیاستدانوں کی بجائے سول ملٹری بیوروکریٹس پاکستان کے وسائل پر قابض ہو گئے۔
نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی روح اور علامہ اقبال و قائد اعظم کے واضح تصور پاکستان کے مطابق لازم تھا کہ سرمایہ دارانہ وجاگیر دارانہ نظام کو تبدیل کر کے اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق اور آزادی کے تقاضوں کے مطابق پاکستانی نظام تشکیل دیا جاتا۔مگر افسوس کہ امریکہ برطانیہ اور سول ملٹری بیوروکریٹس اور جاگیرداروں نے ملی بھگت کر کے جغرافیائی آزادی کے بعد انگریزوں کے نظام کو تبدیل کرکے آزادی کی تکمیل نہ کی جس کی وجہ سے پاکستان کے پسماندہ علاقے ترقی نہ کر سکے اور ان میں احساس محرومی پیدا ہوا جو علیحدگی کا مرکزی نقطہ ثابت ہوا۔
جنرل ایوب خان کے آمرانہ دور میں مشرقی پاکستان کو ایک کالونی کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس کا معاشی استحصال کیا گیا ۔ نظریہ پاکستان کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کو ترقی کرنے کے مساوی مواقع اور مراعات نہ دیے گئے جس سے مایوسی اور بداعتمادی کے جذبات پیدا ہوئے۔
1965ء کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے عوام کو یہ احساس ہوا کہ مغربی پاکستان ان کی آزادی کا دفاع نہیں کر سکتا۔جنرل ایوب خان نے اپنی ڈائریوں میں تحریر کیا ہے کہ ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں رہے گا لہذا انہوں نے اپنی قومی پالیسیوں میں اس سوچ کو ذہن میں رکھا۔
 1947ء سے 1970 ء تک ایک بھی بنگالی مشرقی پاکستان کا چیف سیکرٹری نامزد نہیں کیا گیا۔ بنگالیوں کو نفرت تضحیک اور تعصب کا نشانہ بنایا گیا ۔ سیاسی و جمہوری حقوق غصب کرنے کے بعد معاشی استحصال دوسرا بڑا فیکٹر تھا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
شیخ مجیب الرحمٰن کی اپنی یادداشتیں کتابی صورت میں شایع ہوچکی ہیں جن میں شیخ مجیب نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے ایک انڈر گراؤنڈ تنظیم بنا رکھی تھی جس کو ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کی سرپرستی حاصل تھی۔
1970ء کے انتخابات سے پہلے شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات پیش کرکے پاکستان کی وحدت اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا جس کا بروقت کوئی ادراک نہ کیا گیا۔ ٹھوس اور مستند شہادتوں کے مطابق جنرل یحییٰ خان کو خفیہ ایجنسیوں نے یہ رپورٹ دی تھی کہ انتخابی نتائج میں کوئی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور اس طرح طاقت کا مرکز جنرل یحییٰ خان صدر پاکستان ہی رہیں گے ۔
جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے لیے ایل ایف او کے نام سے جو قانون بنایا اس میں ایک یہ شرط رکھ دی کہ اگر قومی اسمبلی 120 دن کے اندر آئین تیار نہ کرسکے تو وہ خود بخود ختم ہو جائے گی۔1970 کے انتخابات میں حیران کن طور پر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی نے اکثریت حاصل کرلی۔
 انتخابات کے بعد پاکستان کی مقتدر قوتوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا جنرل یحییٰ خان کا فرض تھا کہ وہ شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار منتقل کر دیتے۔ اس کے بعد پاکستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ سیاستدانوں پر چھوڑ دیا جاتا۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار منتقل نہ کیا اور ایک سیاسی مسئلہ کو فوجی آپریشن کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جس سے پاکستان کے دشمن بھارت نے فائدہ اٹھایا اور مکتی باہنی سے مل کر مشرقی پاکستان کے اندر اپنی افواج کو داخل کر دیا۔
 اگر بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت نہ کرتا تو پاکستان کے پاس مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان کنفیڈریشن بنانے کا ایک آپشن موجود تھا ۔شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات پر بضد رہے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی یہ کوشش تھی کہ 6 نکات میں سے کرنسی اور بیرونی تجارت کے نکات نکال دیے جائیں تاکہ پاکستان کی قومی یکجہتی اور وحدت قائم رہے۔ جو لوگ سقوط ڈھاکہ کی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالتے ہیں وہ تعصب کا مظاہرہ کر تے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا مقدمہ لڑ کر پاکستان کو چھ ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے بچا لیا اگر چھ نکات کو تسلیم کر لیا جاتا تو سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں علیحدگی کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوتیں ۔ ملک سیاسی بیانات سے نہیں ٹوٹا کرتے غیر منصفانہ استحصالی فیصلوں پالیسیوں و اقدامات سے ضرور ٹوٹ جاتے ہیں۔ جن عوامل کی وجہ سے مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوا بدقسمتی سے وہ آج بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی قومی یکجہتی خطرے میں پڑ چکی ہے۔
سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمارا قومی فرض ہے کہ ہم انگریزوں کے نظام کو تبدیل کر دیں جو ملک کو اندر سے کمزور اور مایوسی بد اعتمادی اور محرومی کے جذبات پیدا کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا سبق یہ ہے کہ ہم پاکستان کے سیاسی معاشی عدالتی انتظامی عسکری اور پولیس کے نظام کو تبدیل کر دیں جو انگریزوں نے متحدہ ہندوستان میں عوام کا استحصال کرنے کے لئے اور ان کو غلام رکھنے کے لیے اور قومی وسائل کی لوٹ مار کے لیے نافذ کیا تھا۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن