• news

اتوار ،23  جمادی الاوّل 1444،18 دسمبر2022ء 


بلاول کا مودی کو قصاب کہنے پر بی جے پی کا پاکستانی سفارتخانہ کے سامنے احتجاج کااعلان
اب اگر پاکستانی وزیرخارجہ نے دنیا کے سامنے بھارتی وزیراعظم کا حقیقی چہرہ بے نقاب کردیا تو اس پر بی جے پی والوں کو زیادہ سیخ پاہونے کی ضرورت نہیں۔ خودہی سینے پر ہاتھ رکھ کر بتادیں قصائی کو قصائی نہیں کہیں گے توکیا عطرفروش کہیںگے۔
 ’’قصاب کہہ کے بلایا تو برامان گئے
آئینہ ان کو دکھایا تو برامان گئے
مسلمانوں کے خون سے لتھٹرے ہوئے اسکے ہاتھ،کشمیریوں کے لہوسے نچڑے ہوئے اس کی آستین و دامن چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ نریندر مودی شکل سے سادھو لگتاہے مگر اندر سے وہ مکمل طورپر ایک قصلب ہے۔ جو بھارت میں آباد 22کروڑ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینا چاہتاہے۔ مگر وہ بھول رہاہے کہ ایسا نہ اس سے پیشتر ہوسکا نہ آئندہ ہوگا۔ بھارت کی اکثر یتی آبادی ہندومت کی پیروکارہے وہ صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ رہی ہے۔ اکا دکا سانحات کے باوجودآج بھی ہندؤں کی بڑی تعداد کو مسلمانوں سے بیرنہیں۔مگر انتہا پسند مہاسبھائی غنڈوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ جن سنگھی ہوں یا بجرنگ دل کی شکل میں یہ سب اب بی جے پی کے سیاسی پلیٹ فارم سے پورے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف آگ لگاتے پھررہے ہیں۔ اب اگر نریندر مودی یہ سمجھتاہے کہ وہ گاؤ رکھشا۔بابری مسجد۔اذان اور قرآن مجید کے حوالے سے مسلمانوں کو زیردام لاکر ذبح کرے گا تویہ اس چائے والے کی بہت بڑی بھول ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے خود بھارت میں رہنے والے پارلیمنٹیرین اویسی برادران انہیں اسی نام سے پکار کرہرجلسے میں ان کا چہرہ عوام کو دکھاتے ہیں۔ اب تو پاکستانی وزیرخارجہ نے انہیں قصائی کالقب دے کر ایک نیانام دے دیاہے۔ ہوسکتاہے عالمی سطح پر یہ نام مقبولیت پائے اور انہیں دنیا میں بوچڑمودی یعنی مودی قصاب کے نام سے شہرت ملے۔ بھارت میں البتہ انہیں قصائی کہنا مشکل ہوگا۔
 ٭٭٭٭
پی آئی اے میں 80پائلٹوںسمیت 250افراد کی بھرتیوں کی درخواست مسترد
سپریم کورٹ نے بات توسوفیصد درست کی ہے۔ ایک عقل کا اندھا بھی بتاسکتاہے کہ جب جہاز ہی 30ہوں تو80نئے پائلٹس بھرتی کرنے کی ضرورت ہی کیاہے۔ کیا وہ کاغذ کے جہاز بنابنا کراڑائیں گے۔ پی آئی اے پہلے ہی سفارشی اور سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے قرب المرگ ہے۔ ایک کی جگہ 200افراد بھرتی کرنے سے ادارے کی مالی حالت بربادہوچکی ہے۔ خداخداکر کے 6ہزار ملازم جو کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے تھے،ادارے سے نکالے گئے۔ اب پھرنجانے وہ کون سے پراسرار اور خفیہ ہاتھ ہیں جو ایک بار پھر ادارے میں من پسند افراد کو لاکر ادارے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے درپے ہیں۔ پی آئی اے جو کبھی ہوائی سروس میں ایک ماڈل کی حیثیت رکھتاتھا۔ دنیا بھر کی فضائی سروس میں اسے ممتازمقام حاصل تھا۔ کئی ممالک کی ائیر لائنز نے اس کے تعاون سے اڑان بھرنا سیکھی ۔ آج وہ تودنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں شمار ہوتی ہیں اور انگلی پکڑ کران کو چلانے والی  ائیر لائن پی آئی اے اپنی خستہ حالی پررورہی ہے۔باکمال لوگ لاجواب سروس کااعزاز رکھنے والی یہ ہماری قومی ائیر لائن نااہل لوگ اور بے کار سروس کا نمونہ بن چکی ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ ادارے میں سیاسی مداخلت اور میرٹ سے ہٹ کر اندھادھند بھرتیاں تھیں جن کے صدمے سے آج بھی ادارہ نہیں سنبھل سکا۔ اچھا ہواجو سپریم کورٹ نے نئی بھرتیوں کی درخواست مستردکردی۔ ورنہ پہلے سے خسارے میں چلنے ولی ائیرلائن ان اڑھائی سوافراد کو تنخواہ کہاں سے دیتی۔ یہ بھی بوجھ بن کر ادارے کی رہی سہی کسربھی نکال دیتے۔
٭٭٭٭
پٹرولیم قیمتوں میں کمی پر اسحاق ڈار کو خراج تحسین پیش کرنے کی قرارداد
کون سی مبارکباد کس بات پر خراج تحسین۔ آٹھ ماہ مسلسل عوام کی کمرتوڑ کر رکھنے والے اب پیناڈول دے کرکسی اور کو بے وقوف بنائیں۔ عوام اب ان کے جھانسے میں آنے سے رہے۔ ایک طرف اگرپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںکمی کا اعلان کیا گیاہے تو دوسری طرف لیوی ٹیکس بڑھا کر وزارت خزانہ ہاتھ دکھاگئی ہے۔ یوں شکار کو بھی خوش اور صیاد کوبھی راضی کردیا گیاہے۔اس دکھاؤ سجی اور مارو کھبی والی پالیسی سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔ ایک ہفتہ مسلسل اخبارات میں ٹی وی چینلز پر پراپیگنڈ ا ہوتا رہاکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 20تا40روپے تک کمی ہوگی۔ صرف دس روپے کا معمولی اضافہ کرکے لوگوں کو ایک بار پھر نہایت چالاکی سے بے وقوف بنادیا گیا۔ اس پر بھی اگر وزیراعظم شہباز شریف کی طرف وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو خراج تحسین پیش کرنے کی قرار داد پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی گئی ہے تو یہ سوائے مذاق کے اور کچھ نہیں ہے۔ جن بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اسحاق ڈار کو لایاگیا۔ انہیں وزیرخزانہ بنایاگیا وہ سب پانی کے بلبلے ثابت ہوئے۔ نہ ڈالر کی اڑان کنٹرول میں آرہی ہے نہ سونے کی قیمت قابو ہورہی ہے۔ اور تو اور مہنگائی کی شرح بھی ڈالر اور سونے کے ریٹ کی طرح دن بدن بلند سے بلند تر ہورہی ہے اور ڈار صاحب نت نئی تاویلیںپیش کرتے پھر رہے ہیں۔اس پر لوگوں کو پچھلی حکومت کی یاد نہیں ستائے گی تو اور کیا ہوگا۔ 
٭٭٭٭
برائے مہربانی ڈاکوئوںسے مزاحمت نہ کریں: کراچی پولیس چیف
آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
روشنیوں کے شہر کراچی کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہاں کی پولیس کا سب سے بڑا آفیسر ڈاکوئوں اور چوروں کی چوری سینہ زوری کے آگے ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے عوام اپنی جان کی حفاظت کیلئے ڈاکوئوں کے سامنے مزاحمت نہ کریں۔ خدا جانے یہ بے بسی کی کونسی منزل ہے جہاں اختیارات کی تمکنت بھی دم توڑتی نظر آتی ہے۔ وہ یہ کیوں نہیں کرتے کہ عوام کو اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ جاری کریں تاکہ جو ان کو گن پوائنٹ پر لوٹنے آئے تو جواب میں اسے بھی گن پوائنٹ پر نشانہ بنایا جائے تو اسے بھی لگ پتہ جائے کہ اب سڑکوں پر معصوم بے گناہ شہریوں کو لوٹنا آسان نہیں رہا۔ اب انہیں کوئی اور کام ڈھونڈنا پڑے گا۔ کراچی کی حالت تباہ کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ وہاں غیرقانونی طورپر  آباد ہونے والے افغان مہاجرین کا ہے جس کے بعد دوسرا نمبر وہاں کی ایک سابقہ تنظیم کا بھی ہے۔ افغان مہاجر خود کو پاکستانی قانون سے ماورا سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے انہیں وہاں آباد  پاکستانی پشتون مقامی لوگوں کی بھی حمایت حاصل ہے  جس کی وجہ سے کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یہ مہاجر کھلے بندوں اسلحہ و منشیات کی سمگلنگ کرتے ہیں۔ بھتہ خوری‘ قتل‘ چوری‘ ڈکیتی کرنے سے ذرا بھی نہیں چوکتے اور بدنام مقامی پرامن پشتون ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز قتل ہونے والے نوجوان کے قاتل بھی یہی افغان مہاجر تھے۔ اب یہی راہ باقی بچی ہے کہ انہیں بزور طاقت پاکستانی شہروں سے نکال کر واپس افغانستان دھکیلا جائے یا مہاجر کیمپوں تک محدود کیا جائے ورنہ اگر مقامی آبادیوں کا ردعمل آیا تو وہ نہایت خطرناک ہوگا جس سے انتشار پھیلے گا۔

ای پیپر-دی نیشن