بلاول بھٹو کا دورۂ واشنگٹن
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری امریکا کے دورے پر ہیں جہاں وہ اقوامِ متحدہ میں اپنی سرگرمیوں کے علاوہ امریکی حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔اپریل میں اتحادی حکومت کے قیام کے بعد بلاول بھٹو کا یہ تیسرا دورۂ امریکا ہے جسے مبصرین عالمی فورم پر پاکستان کی متحرک سفارت کاری کے ساتھ امریکا سے تعلقات کی بحالی کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ نیویارک میں پاکستانی وزیر خارجہ جی 77 اور عالمی امن و سلامتی کے موضوع پر اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کے مباحثے میں شرکت کے علاوہ واشنگٹن بھی جائیں گے جہاں وہ سرکاری حکام، امریکی کانگریس کے ممبران، پاکستانی کمیونٹی اور کاروباری افراد سے ملاقاتیں کریں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان پائی جانے والی سرد مہری اب ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔ بلاول بھٹو کا دورہ واشنگٹن باہمی تعلقات کے سلسلے میں ہے کیونکہ گزشتہ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان خاصی کشیدگی آگئی تھی۔
امریکا کے دورے کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی دنیا سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ہمسایہ ملک شرپسند عناصر کی معاونت کررہا ہے، پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔امریکا میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں کسی سے کم نہیں، جس میں ہم نے قابل فخر کامیابیاں حاصل کیں۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی کامیابیوں پر فخر ہے، دہشت گرد کا کسی خطے یا مذہب سے تعلق نہیں ہوتا، اس لیے دہشت گردی کے ساتھ اسلام کو جوڑنا ہرگز درست عمل نہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہر ٹاؤن لاہور دھماکے میں ہمسایہ ملک کی مداخلت کے ناقابل تردید ثبوت ہیں، بلوچستان کے عدم استحکام کے لیے بھی غیر ملکی عناصر سرگرم ہیں جبکہ کراچی میں چینی شہریوں کو بھی نشانہ بنانے کے واقعات پیش آئے جس کے تانے بانے بیرون ممالک سے ملتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اسامہ بن لادن تو مرچکا ہے مگر سانحہ بھارتی گجرات میں ملوث فرد زندہ اور آج بھارت کا وزیر اعظم بنا ہوا ہے۔ بھارتی حکومت گاندھی کے نظریات پر یقین نہیں رکھتی بلکہ ہٹلر سے متاثر ہے۔
پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں سر فہرست ہے اور سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھانے والوں میں بھی پاکستان ہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے امریکا میں بیٹھ کر امریکی میڈیا کے زریعے عالمی دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے جو مطالبہ کیا یہ نہ صرف بر وقت ہے بلکہ اس مطالبے کے دورس اثرات مرتب ہوںگے اور دنیا کوجھنجھوڑنے کے لیے یہ مطالبہ ضروری بھی تھا کیونکہ دہشت گردی ابھی مکمل ختم نہیں ہوئی۔ پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک کی جانب سے پاکستان کے اندر در اندازی اور سرحدی خلاف ورزی کے واقعات میں اضافہ بھی دہشت گردی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نہ صرف عالمی حالات واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ خطے میں ہونے والی تبدیلوں کے بارے بھی آگاہ ہیں۔ وہ نہ صرف معاشی میدان میں سرگرم ہیں بلکہ ملکی سرحدوں پر ہونے والے حرکتوں سے بھی واقف ہیں۔ جیسے واقعات خواہ افغانستان کی جانب سے ہوں یا بھارت کی طرف سے یہ پاکستان کے ساتھ عالمی دنیا کے لیے بھی کوئی اچھا پیغام نہیں کیونکہ پاکستان اس طرح کے بلا جواز واقعات کے بعد دنیا سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اس جارحیت کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ یہ مزید ٹینشن نہ بڑھے۔
بلاول بھٹو زرداری ایسے وقت میں امریکا کا دورہ کررہے ہیں جب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے خاتمے کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح سرحد پر ہونے والی حالیہ جھڑپوں کی وجہ سے ہمسایہ ملک میں برسر اقتدار افغان طالبان کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات میں تناؤ آگیا ہے۔تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں افغانستان کی صورتحال اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ کے امکانات موجود ہیں۔ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیناامریکی قومی سلامتی پالیسی کے اہم اہداف میں شامل ہے۔ اس نکتے پر پاکستان اور امریکا کے درمیان دفاعی و انٹیلی جنس تعاون بڑھ سکتا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرین روس جنگ پر بھارت امریکا کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا، لہٰذا واشنگٹن کے فیصلہ سازوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ نئی دہلی سے قربت بڑھاتے ہوئے اسلام آباد کو دور نہیں کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں بلاول بھٹو کا یہ دورہ پاک امریکا تعلقات میں مزید بہتری لانے کا باعث بنے گا۔ دوسری جانب، پاکستان ان دنوں معاشی مشکلات سے بھی دو چار ہے اور زرِمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کے باعث بیرونی قرض کی ادائیگیاں کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے اپنے جائزہ اجلاس کو التواء میں ڈالنے سے پاکستان کے حالات مزید بے یقینی کا شکارہوگئے ہیں۔ ایسے میں حکومت عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی کوشش ہے کہ امریکا عالمی مالیاتی اداروں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس مشکل صورتحال میں مدد یقینی بنائے۔ بلاول بھٹو کے دورۂ واشنگٹن کے خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ معاشی مقاصد بھی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے بیرون ممالک کے دوروں سے پاکستان کے تعلقات عالمی دنیا سے بہتر ہو رہے ہیں یہ ایک اچھے سفارت کار کی سفارت کے اثرات ہیں۔