اسمبلیاں توڑنے کی بجائے سسٹم کو چلنے دیں
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جمعہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری حکومت کو سازش کرکے گرایا گیا۔ ہم نے مشاورت کرلی ہے، قومی اسمبلی میں جا کر کہیں گے ہمارے استعفے منظور کرو۔ ہمیں کرپٹ نظام کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ اس ملک کے اصل وارث عوام ہیں، قوم بن کر ہی مشکل سے نکلنا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ملک میں صاف اور شفاف الیکشن ہوں گے۔ دوسری جانب، وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ایک ایجنڈے کے تحت معاشی تباہی کی گئی، سیاسی عدم استحکام بھی اسی کا تسلسل ہے۔ عوام کا اعتماد توڑنے والے اب اسمبلیاں توڑ رہے ہیں، وہ عوام کی حالت پر رحم کریں۔ حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے عمران خان کے تحفظات درست ہو سکتے ہیں جن پر احتجاج کرنا اپوزیشن کا آئینی حق ہے۔ اگر وہ اپنا یہ احتجاج سڑکوں کے بجائے اسمبلیوں میں بیٹھ کر ریکارڈ کرائیںتو وہ حکومت کے خلاف مؤثر آواز اٹھا سکتے ہیں۔ عمران خان کامیاب اپوزیشن لیڈر رہ چکے ہیں اور 2018ء سے قبل اس وقت کی حکومت کو ٹف ٹائم دے چکے ہیں۔ عمران خان کو اپنی افراتفری کی سیاست سے ملک کو ہونے والے نقصان اور عوامی مسائل میں اضافے کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث ہر ادارہ اپنے فرائض پورے کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے ۔ 2014ء میں عمران خان حکومت کے خلاف 126 روز کا طویل ترین دھرنا دے کربھی نوازشریف کی حکومت گرانے میں ناکام رہے ، اب وہ استعفوں کی سیاست کا شوق بھی پورا کر چکے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ وہ آئینی طریقے سے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنا اپوزیشن والا کردار ادا کریں۔ 9 ماہ قبل اس وقت کی اتحادی جماعتوں (پی ڈی ایم) نے احتجاج اور سڑکوں پر نکلے بغیر آئینی طریقے سے ان کی حکومت گرائی تھی، اس لیے پی ٹی آئی چیئرمین کو بھی اپنی اودھم مچانے، جلسے جلوس اور لانگ مارچ والی سیاست سے رجوع کرکے احتجاج کا آئینی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ موجودہ حکومت کی مدت چند ماہ رہ گئی ہے، اسے پورا ہونے دیں تاکہ سسٹم چلا رہے۔ وہ مہنگائی سمیت عوامی مسائل اور اقتصادی پالیسیوں کے خلاف اسمبلیوں میں بیٹھ کر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ ابھی فوری الیکشن کرانے کا ان کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں، اگر مدت پوری ہونے کے قریب پہنچ کر حکومت الیکشن سے بھاگتی ہے تو ان کے پاس اسمبلیاں توڑنے کا قانونی جواز ہوگا۔ انھیں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کا انتظار کرنا چاہیے اور اپنی سیاست کے ملکی مفاد میں ہونے کا تأثر دینا چاہیے۔