عالمی برادری بھارت کی شدت پسندی کا نوٹس لے
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ان دنوں امریکا میں ہیں اور 19 سے 21 دسمبر تک وہ دارالحکومت واشنگٹن کا دورہ کریں گے جہاں امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن سے ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور خطے کی سکیورٹی کی صورتحال پر تبادلۂ خیال متوقع ہے۔ اس موقع پر وزیر خارجہ امریکی حکام کو بھارت کے جارحانہ عزائم سے بھی آگاہ کریں گے۔ بھارت خطے میں امن و سلامتی کو تباہ کرنے کے لیے جو کچھ کررہا ہے وہ ایک کھلا راز ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہے جو انھیں پاکستان کو غیر مستحکم کر نے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کو پاکستان کئی بار ایسے ناقابلِ تردید ثبوت مہیا کرچکا ہے جن سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ بھارت پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کررہا ہے۔
اسی حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت دہشت گرد تنظیم کالعدم ٹی ٹی پی کی مالی اور انتظامی معاونت میں ملوث ہے۔ پاکستان مزید دہشت گردی برداشت نہیں کرے گا۔ ہمیں کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے کہا ہمیں دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہیں ختم اور ان کی مالی معاونت کی جڑیں کاٹنا ہوں گی۔ اقوامِ متحدہ میں سانحہ آرمی پبلک سکول کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے دوٹوک پیغام میں کہا کہ پاکستان کے پاس دہشت گرد تنظیموں کو دشمنوں کی مالی معاونت کے شواہد موجود ہیں۔ اس کام میں سابقہ افغان حکومت کے عناصر بھی ملوث ہیں۔ امریکی میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے اندر دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی آواز یہاں پہنچائی۔ دہشت گردی کے متاثرین اور پاکستان کے عوام سے اظہار یکجہتی کرنے والے ممالک کے شکرگزار ہیں۔
وزیر خارجہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، دہشت گردی کے مرتکب نہیں۔ ہماری پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ماضی میں جو کوتاہیاں ہوئیں وہ اب نہیں ہوں گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ہمارا حکومتی اتحاد پرعزم ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم اپنے وسائل سیلاب متاثرین پر خرچ کر رہے ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مذہبی انتہاپسندی چھوڑ دے، دنیا جانتی ہے بھارتی وزیراعظم کا ماضی کیا تھا۔ احتجاج کر کے تاریخ نہیں بدلی جا سکتی، ماضی نہیں لیکن مستقبل بدل سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے یہ بات کہہ کر اپنی ذمہ داری تو پوری کردی ہے لیکن بھارت کے رویے میں اس کے بعد بھی کوئی مثبت تبدیلی آتی ہرگز دکھائی نہیں دیتی۔
اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان وزیر خارجہ کے بیان پر سیخ پا ہوگیا ہے جس کے جواب میں دفتر خارجہ کو بھارت کو یہ یاد دلانا پڑا کہ حقائق کیا ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بھارتی وزارت خارجہ کے دو روز پہلے جاری ہونے والے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے اپنے اس بیان کے ذریعے 2002ء کے گجرات کے قتل عام کے حقائق اور رازوں کی پردہ پوشی کی کوشش کی جو ایک بڑے پیمانے پر قتل عام، لاقانونیت، عصمت دری اور لوٹ مار کی شرمناک کہانی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ گجرات قتل عام کے ماسٹر مائنڈ سزا سے بچ گئے اور اب بھارت میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے جرائم کی الفاظ سے پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی۔ حکمران جماعت کے ہندوتوا سیاسی نظریے نے نفرت، انتشار اور استثنیٰ کے ماحول کو پروان چڑھایا ہے۔
اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسی ہفتے ایک ڈوزیئر جاری کیا گیا ہے جس میں 2021ء میں لاہور کے ایک پرامن علاقہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجودہیں۔ بین الاقوامی تعاون سے حاصل کیے گئے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ لاہور حملے میں ملوث دہشت گردوں کو بھارتی ریاست کی سرپرستی حاصل تھی، جس کی منصوبہ بندی اور مالی معاونت بھارت کی طرف سے کی گئی۔بھارتی وزارت خارجہ کا بیان پاکستان کو بدنام اور تنہا کرنے میں ناکامی پر بھارت کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا بھی عکاس ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس کا جنوبی ایشیا کو اپنی روپ میں بدلنے کا خواب پورا نہیں ہو گا۔
عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ بھارت خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے اور اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے کس قسم کی مذموم حرکتیں کررہا ہے لیکن اس کے باوجود ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مسلسل بھارت کی ان کارروائیوں سے متعلق رپورٹیں بنا کر بین الاقوامی اداروں کو بھیجتا رہے جن کارروائیوں کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا اور خطے کا امن و سکون تباہ کرنا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھے اور بھارت کی ان کارروائیوں کا نوٹس لے کر انصاف کے تقاضے پورے کرے۔