• news

پیر،24  جمادی الاوّل 1444،19 دسمبر2022ء 


چیئرمین پی سی بی کی تبدیلی، سمری وزیر اعظم کو ارسال 
اس بار بھی لگتا ہے قرعہ بنام نجم سیٹھی ہی نکلے گا۔ کیونکہ انہیں اس عہدے کے لیے مضبوط امیدوار خیال کیا جاتا ہے۔ یہ تو پہلے سے طے تھا کہ موجودہ حکومت پی سی بی کے موجودہ چیئرمین رمیز راجہ کا راج پاٹھ ختم کرنے کے لیے تیار ہے مگر موزوں امیدوار کی تلاش تھی اور چند بڑے ایونٹ بھی ہونے تھے اس لیے میدان میں گھوڑے نہیں بدلے گئے۔ اب جب موزوں ترین امیدوار حکومت کو مل گیا ہے تو تاخیر مناسب نہیں فوری طور پر سمری تیار کر کے وزیر اعظم کو بھیج دی گئی ہے کہ رمیز راجہ کو چیئرمین پاکستان کرکٹ کونسل کی گدی سے ہٹا کر وہاں کسی اور کو بٹھایا جائے۔ اس سلسلے میں نجم سیٹھی پر نگاہیں اس لیے اٹھ رہی ہیں کہ انہوں نے گزشتہ روز دور کی خبر لانے والی اپنی چڑیا یعنی بیگم محسن جگنو کے ساتھ وزیر اعظم سے ملاقات بھی کی ہے جس کی تصویر میں تینوں خوش نظر آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ اندرون خانہ یہ بھی طے پایا ہے کہ 2014ء کا پی سی بی کا آئین بحال کر دیا جائے گا جس سے ان لوگوں کو اطمینان ہوا ہو گا جو اندرون ملک شعبہ جاتی کرکٹ کا وہی سسٹم بحال چاہتے ہیں جو پہلے تھا تاکہ نجی و سرکاری ادارے نوجوان کرکٹروں اور نئے ٹیلنٹ کی سرپرستی کر سکیں اور کرکٹ کے گرائونڈ آباد ہوں جو ان کے نزدیک ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی سے ممکن ہے۔ دیکھتے ہیں اب راجا جی کب تک اپنے ڈولتے ہوئے راج سنگھاسن کی چیئرمینی کو سنبھالتے ہیں۔ جلد یا بدیر ان کی جگہ نجم سیٹھی ہوں گے یوں راجا رفت سیٹھی آید والی بات سب کے سامنے ہو گی۔ یہ سب کچھ چند دن میں ہو گا مگر خبر آنے کے بعد رمیز راجا 
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو 
اس شہر میں جی کو لگانا کیا 
کے مصداق کوچ کی تیاری شروع کر چکے ہوں گے۔ 
٭٭٭٭٭
ٹی ٹونٹی بلائنڈ ورلڈ کپ 2024 ء کی میزبانی پاکستان کو مل گئی 
آج کل لگتا ہے بھارت کے ستارے گردش میں ہیں وہ جہاں جہاں پاکستان کے خلاف کوئی بات یا حرکت کرتا ہے اس کا جواب کئی گنا زیادہ شدت سے اسے وصول ہوتا ہے۔ سیاست اپنی جگہ بھارت تو کھیل کے میدان میں بھی باہمی نفرت اور دشمنی کی فضا پیدا کرنے سے نہیں چوکتا۔ اس کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر جگہ پاکستان کو خراب ماحول اور دہشت گردی کا مرکز بتا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش کرے۔ مگر ہر جگہ اسے منہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔ دنیا بھر سے کرکٹ ہی نہیں دیگر کھیلوں کے کھلاڑی بھی پاکستان آ کر کھیل رہے ہیں اور دنیا کو پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ کرکٹ کے میدان میں تو جو ملک پاکستان میں ٹیمیں بھیجنے سے ڈرتے تھے وہ اب ون ڈے ، ٹی ٹونٹی اور پانچ روزہ سیریز کھیلنے کے لیے اپنی ٹیمیں ہنسی خوشی روانہ کرتے ہیں مگر بھارت کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ والی بات ہے۔ کبھی ایشیا کپ پر اور کبھی بلائنڈ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے پاکستان میں انعقاد پر اعتراض کرتا ہے تو کبھی پاکستان جا کر نہ کھیلنے کی دھمکی دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود بلائنڈ ورلڈ کرکٹ کونسل نے اس بار بھارت کی کسی بات پر کان نہیں دھرا اور 2024ء کی ٹی ٹونٹی بلائنڈ ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان کو دیدی ہے۔ اس پر تو بھارت میں صف ماتم بچھ گئی ہو گی۔ کیونکہ اس میدان میں بھی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی بھرپور مخالفت کے باوجود ٹی ٹونٹی بلائنڈ ورلڈ کپ اب پاکستان میں منعقد ہو گا۔ اب بھارت کی مرضی ہے وہ اس میں شرکت کرے یا نہ کرے۔ فیصلہ ہو چکا اب بھارت کے پاس رونے دھونے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ 
٭٭٭٭٭
 عمران اسمبلیاں توڑنے پر یوٹرن لیں گے ،پی ڈی ایم کایوم تشکر منانے کا اعلان
خیبر پی کے اور پنجاب اسمبلی پانی میں نمک کی طرح تحلیل ہو یا چولہے میں لکڑی کی طرح جل کر راکھ ہو۔ اس مسئلے پر دونوں طرف خوب سیاست ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی پوری خواہش اور کوشش تھی کہ گزشتہ روز اس بارے میں سخت فیصلہ کر دیں۔ مگر وہی 
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم 
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو 
تمام تر خواہش کے باوجود وہ ایسا نہ کر سکے اور اگلے جمعے تک یہ کام موخر کر دیا ۔جو آج نہ ہو سکا وہ بھلا اگلے جمعے تک کیا ہو گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کسی صورت نہیں چاہیں گے کہ خدا خدا کر کے انہیں جو وزارت اعلیٰ ملی ہے وہ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات میں بدل جائے۔ خیبر پی کے میں البتہ بات قدرے مختلف ہے۔ وہاں کھلاڑیوں کی اکثریت ہے جو اپنے کپتان کے ساتھ ہیں مگر بہت سے اپنی باری لینے کے لیے پورا میچ کھیلنے کے حق میں ہیں۔ سو اس معاملے میں جتنی تاخیر ہو رہی ہے اس پر حکمران خوشیاں منا رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی طرف سے تو باقاعدہ یوم تشکر منانے کا بھی اعلان کیا ہے کیونکہ انہیں پوری امید ہے آئندہ جمعہ تک عمران خان پھر حالات و واقعات اور اتحادیوں کے پس و پیش کی وجہ سے حسب معمول یوٹرن لیں گے اور معاملہ آگے چلا جائے گا اور یوں ایک بار پھر 
اے دوست یاد آئیں بڑی شدت سے 
کبھی کبھی تیری مجبوریاں کبھی کبھی تو 
 چند روز بعد ویسے ہی نیا سال شروع ہونے والا ہے جس کے اکتوبر میں الیکشن متوقع ہیں مگر پی ٹی آئی کی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں پس و پیش پی ڈی ایم کے کئی اتحادی الیکشن کو مزید آگے لے جانے کی خواہش کو ہوا دیتے نظر آ سکتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
بے نظیر پروگرام کے وظیفے میں کمی کیخلاف خواجہ سرائوں کا مرغا بن کر احتجاج 
اب مرغا کیوں،یہ لوگ مرغی بن کر بھی احتجاج کر کے اس میں رنگ جما سکتے تھے۔ انہوں نے کونسا مرغا بن کر بانگ دینی تھی۔ یہ تو سراسر مرغوں کے ساتھ زیادتی ہے کہ ان کو بدنام کیا جاتا ہے ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔ سکولوں،مدرسوں، گھروں اور دکانوں میں بھی یہی کہا جاتا ہے مرغا بنو۔ اب کم از کم خواجہ سرا ہی اس صنفی تفریق کو ختم کر کے مرغی بن کر احتجاج کرنے کی نئی رسم ڈال سکتے ہیں۔ اگر مرغی کا لفظ موزوں نہیں لگتا تو ککڑی بن کر بھی احتجاج کرنا زیادہ موثر ہو سکتا ہے کیونکہ مرغی کی نسبت ککڑی کا لفظ زیادہ جاندار اور پرتاثیر ہے۔ رحیم یار خان میں ان خواجہ سرائوں کو شکایت ہے کہ بے نظیر پروگرام کے تحت انہیں جو وظیفہ ملتا تھا اب اس کی رقم میں کمی کر دی گئی ہے۔ پہلے ہی ملکی حالات کساد بازاری کا شکارہیں۔ ہر قسم کا کاروبار ٹھپ ہے۔ اوپر سے جو وظیفہ ملتا تھا اب اس میں بھی کٹوتی ہو تو یہ بھوکا مارنے والی سازش لگتی ہے۔ رحیم یار خان سے 150 خواجہ سرائوں نے رجسٹریشن کرائی تھی مگر ان میں سے صرف 15 امداد کے اہل قرار پائے جنہیں 12 ہزار روپے ملتے تھے جو اب اچانک نجانے کونسی افتادہ ٹوٹی ہے کہ یہ 7 ہزار روپے کر دی گئی۔ شاید درمیان میں ڈنڈی مارنے والوں نے سوچا ہو گا انہوں نے کونسا شور کرنا ہے۔ مگر وہ بھول گئے کہ اب مرغا بن کر یا مرغی بن کر بھی ان کی یہ کرپشن بے نقاب کی جا سکتی ہے۔ سو اس میں یہ خواجہ سرا کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن