بلاول بھٹو اور سفارت کاری کا فن
حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان جلد ہی وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کریگا جس میں علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے روڈ اور ریل لنکس کے ذریعے رابطوں پر توجہ دی جائیگی۔ انہوں نے توانائی، ٹرانسپورٹ ٹرانزٹ ٹریڈ اور لاجسٹکس کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو قائم اور مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جو کہ پی ڈی ایم حکومت کا ایک اور بڑا اقدام ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کے بریفنگ روم میں اپنے ہندوستانی ہم منصب کے پاکستان پر دہشت گردی کو جاری رکھنے اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزام کے چند منٹ بعد پاکستان کے سب سے کم عمر وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا پالیسی بیان اپنے آپ میں ایک بہت بڑی جیت ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ نے ہندوستانی وزیر خارجہ ایس۔جے شنکر کے ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے کہا ‘ میں مسٹر جے شنکر کو یاد دلانا چاہوں گا کہ اسامہ بن لادن مر چکاہے، لیکن گجرات کا قصاب زندہ ہے، اور وہ (ہندوستان کا) وزیر اعظم ہے۔ اس بیان نے ان کے ہندوستانی ہم منصب کو حیرت میں مبتلا کر دیا اور انڈین پریس کو یوں دنگ کر دیا جیسے اس جرأت مندانہ بیان سے ان پر بجلی گر گئی ہو۔ مسٹر بھٹو زرداری کی بریفنگ کے دوران، ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان لفظی جنگ کیوں چھڑ گئی۔تو پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا ’’یہ لفظوں کی جنگ میں نہیں ہے۔ میں نے اس کا نوٹس نہیں لیا‘‘۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ دہشت گردی کا شکار تھے کیونکہ ان کی والدہ کو ہزاروں دیگر پاکستانیوں کے ساتھ دہشت گردوں نے ہلاک کیا تھا۔ ’’ہم نے دہشت گردی سے بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانیں گنوائی ہیں،’’اور نشاندہی کی کہ ’’انڈیا کوکھیلنے کیلئے spaceملی ہے ‘‘ جس نے مسلمانوں کو دہشت گردی سے منسلک کرنا "بہت آسان" بنا دیا ہے۔"بھارت نے بہت مہارت سے اس لکیر کو دھندلا دیا ہے، اور ہم جو حقیقت میں دہشت گردی کا شکار ہیں کو دہشت گرد بنا دیاہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھی سرحد پار دہشت گردی کیخلاف پاکستان کے سخت مؤقف اور عدم برداشت کا اظہار یہ کہہ کر کیا کہ "ہم انکے خلاف براہ راست کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں"۔ بلاول نے 1971 کی ناکامی کے اسباب کے بارے میں بھی اپنی رائے دینے میں بھی دیر نہیں کی اور اسے سیاسی ناکامی کے بجائے عسکری ناکامی قرار دیا ہے۔ بلاول COP 27 کے شرم الشیخ موسمیاتی سربراہی اجلاس میں بنائے گئے Fund Loss and Damage حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے اور اس طرح وہ موسمیاتی نقصانات پر 30 سالہ ڈیڈ لاک کو توڑنے میں بھی کامیاب رہے۔ بلاول کی تازہ ترین کامیابیوں کا ذکر کیا جائے تو ایک تو وہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلانز کو مکمل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور پاکستان کو’ہائی رسک کنٹریز‘ کی لسٹ سے نکالنے میں بھی یواین‘ اوآئی سی تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متفقہ قرارداد منظور کی گئی اور اسکی رہنمائی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک اور اہم کامیابی ہے۔یہ قرارداد اقوام متحدہ اور او آئی سی کے مشرق وسطیٰ کے امن کو فروغ دینے اور اس میں سہولت فراہم کرنے کے مشترکہ مقصد کی توثیق کرتی ہے۔ قرارداد کی شرائط کے تحت، "اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کے درمیان تعاون"، 193 رکنی اسمبلی نے اس بات کی توثیق کی کہ مشرق وسطیٰ کے امن کے عمل کو فروغ دینا اقوام متحدہ اور او آئی سی کا مشترکہ مقصد ہے تاکہ خطے میں منصفانہ اور دیرپا امن قائم ہوسکے۔ اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ساتھ پرامن اور سیاسی حل کو فروغ دینا مشترکہ مقاصد میں شامل ہے۔ اس میں دونوں تنظیموں کی مشترکہ مسائل پر مل کر کام کرنے کی خواہش کو اجاگر کیا گیا ہے، بشمول عالمی سلامتی، خود ارادیت، علاقائی سالمیت کا احترام، نوآبادیات اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا۔ اس قرارداد میں تمام رکن ممالک کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کیلئے عالمی دن منانے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ اپنے آپریٹو پیراگراف میں، مسودہ اسلامی تنظیم اور اقوام متحدہ کے اداروں کے درمیان جاری تعاون کو تسلیم کرتا ہے، بشمول اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین اور اقوام متحدہ کے ادارے برائے صنفی مساوات اور دونوں کے درمیان خواتین کو بااختیار بنانے کا تعاون اتنا اہم کبھی نہیں رہا۔ اس مشکل وقت کے مقابلے میں۔ میرے خیال میں چین کے تعلقات پر سختی سے سمجھوتہ کیے بغیر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا اسٹیبلشمنٹ کی زبردست پالیسی ہے۔ تاہم، یہ واضح رہے کہ چینی اپنے کاروباری معاملات میں کافی لا پرواہ ہیں جو کسی بین الاقوامی قانونی ضابطے کے پابند نہیں ہیں۔ لہٰذا، اگرچہ وہ پاکستان کے مددگار بھی رہے ہیں اور ہمارے جغرافیہ میں انکی گہری دلچسپی بھی ہے، پھر بھی انکے ساتھ احتیاط سے چلنا چاہیے۔ دوسری طرف، روس اب بھی ایک قدیم مافیا ہے، جس میں ایک گینگسٹر حکومت ہے، اور ہمارے پاس انکے ساتھ زیادہ مراسم بڑھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال میں۔ اگرچہ جنرل (ر) باجوہ کو انکے متعصبانہ پراپیگنڈا کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ملک کو تاریخ کے غلط موڑ پر جانے سے بچا لیا ہو۔