دیکھئے اب 23 دسمبر کو کیا تماشا ہو
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے اعلان کے مطابق آج سے ٹھیک تین روز بعد یعنی 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیاں تحلیل ہونی ہیں۔ مقررہ تاریخ کو اسکی نوبت آپاتی ہے یا نہیں‘ اس بارے میں تو اب بھی محض قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں، قیافے ہی لگائے جاسکتے ہیں، کسی نجومی سے فال نکلوا کر مضطرب دل کو کچھ تسلی دی جا سکتی ہے اورکسی اقدام کے مابعدممکنہ اثرات کا جائزہ لے کر کسی الٹ پھیر کی کوئی کہانی تراشی جا سکتی ہے مگر یہ معاملہ تو اب عین القین کی حد تک طے ہو چکا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اپنے فرزند ارجمند مونس الٰہی کے ممدوح عمران خان سے اپنے سیاسی راستے الگ کرلئے ہیں۔ انہوں نے ایک نجی ٹی وی کو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ دیئے گئے انٹرویو میں اپنی سیاسی حکمت عملی اور پنجاب کی تحلیل کے معاملہ میں اپنے مافی الضمیر کے کئی پہلو چھپاتے چھپاتے بھی اجاگر کر دیئے۔ اور اس بارے میں تو اپنا اٹل فیصلہ صادر کردیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کیخلاف کسی بھی جانب سے وہ کوئی بات سنیں گے نہ برداشت کرینگے۔ کیا عمران خان اپنے اتحادی چودھری پرویز الٰہی کے اس دوٹوک موقف کا احترام کرتے ہوئے جنرل (ر) باجوہ کیلئے میرصادق‘ میرجعفر کی گردان ترک کر دیں گے؟ انہوں نے تو اسکے برعکس جنرل باجوہ پر کرپشن کے الزامات کے ہتھوڑے بھی برسا دیئے ہیں۔ سو جناب!
نہ ہم سمجھے‘ نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیئے اپنی جبیں سے
عمران خان اپنی بلیم گیم والی جبلت سے کسی صورت رجوع نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اسے اپنی عوامی مقبولیت کی کنجی سمجھتے ہیں۔ وہ تو اب اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت کو بھی یہ کہہ کر اپنی بلیم گیم والی سیاست کی زد میں لانے کی تیاری مکمل کر چکے ہیں کہ اگر 90 روز کے اندر اندر نئے انتخابات نہ ہوئے تو پھر انکے نزدیک کوئی بھی نیوٹرل نہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے بقول ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی خاطر اسٹیبلشمنٹ موجودہ سسٹم کو چلتے رہنے دینا اور اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے دینے کی خواہش مند ہے۔ اس کیلئے گزشتہ روز سے حکومتی اتحادیوں میں جو مشاورت چل رہی جس میں اب چودھری پرویز الٰہی پر ہاتھ رکھنے کیلئے چودھری شجاعت حسین سے ضمانت حاصل کرنے تک بات جا پہنچی ہے تو جناب:
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ‘ گھبرائیں کیا
اب میں اپنے اس یقین کی طرف آتا ہوں جس کا میں نے چودھری پرویز الٰہی کے عمران خان سے راستے الگ ہونے کے بارے میں اظہار کیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی پر یقیناً عمران خان کا یہ احسان تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے صرف دس ارکان پنجاب اسمبلی کے ساتھ اس اہم ترین صوبے کی وزارت اعلیٰ کا تاج انکے سر پر سجا دیا۔ چودھری پرویز الٰہی اس بارِ احسان سے زیربار ہوتے ہوئے ہی اسمبلیاں توڑنے کے عمران خان کے فیصلے کی تائید کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ احسان اتارنے کیلئے لانگ مارچ کے اختتام پر انکے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان کے ساتھ ہی پنجاب اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط کرکے یہ پروانہ عمران خان کے ہاتھ تھما دیا کہ وہ جب چاہیں اسے گورنر پنجاب کے پاس بھجوا دیں یا اس پر مزید سیاست چمکاتے رہیں۔ چودھری پرویزالٰہی نے اس بارِ احسان سے آزاد ہو کر درحقیقت عمران خان کو یہ پیغام دیا کہ ہم باز آئے محبت سے‘ اٹھا لو پاندان اپنا۔ اسکے بعد تو چودھری پرویزالٰہی پر عمران خان کا کوئی قرض باقی نہیں رہا۔
اب پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں نگران حکومت بنتی ہے جو ظاہر ہے آئین کے تقاضوں کے تحت وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی رضامندی سے بنے گی اور پھر اس نگران حکومت کے ماتحت الیکشن کمیشن دو ماہ کے اندر اندر پنجاب اسمبلی کے باقیماندہ مدت کیلئے ضمنی انتخابات کراتا ہے یا حالات بنتے بگڑتے ان انتخابات کو کھینچ کھانچ کر معمول کے عام انتخابات تک لے جاتے ہیں تو کیا خیال ہے‘ پرویز الٰہی ان ضمنی یا عام انتخابات میں عمران خان کے ساتھ سیاسی انتخابی اتحاد بنائیں گے یا اپنی پارٹی کی سیاسی انتخابی حکمت عملی خود طے کرینگے جبکہ اس صورت میں چودھری سجاعت حسین اور وہ دوبارہ یکجان دو قالب کی عملی تصور بن سکتے ہیں۔
میرے خیال میں تو چودھری پرویز الٰہی نے نہ صرف عمران خان کا احسان مندی والا بوجھ اتار کر ابھی سے خود کو عمران خان کی سیاست سے الگ کرلیا ہے بلکہ مستقبل قریب کی سیاست میں وہ عمران خان کے سیاسی طرز عمل کے بخیئے ادھیڑتے بھی نظر آئیں گے جس کیلئے انہوں نے شریف فیملی کی جانب بھی مفاہمت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور آصف زرداری کو بھی اپنے اس ایک فقرے کے ذریعے خوش کر دیا ہے کہ وہ بڑے دل والے ہیں۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہنے کا اعلان سے زیادہ انکشاف کرکے انہوں نے مستقبل کی سیاست کا سارا ممکنہ نقشہ بھی اجاگر کر دیا ہے جس میں عمران خان کا کوئی کردار کسی محدب عدسے سے بھی شاید دیکھنے کو نہ ملے۔ اس سیاست میں عمران خان سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کے بارے میں مزید انکشافات یا دشنام طرازی کرینگے تو اس سے ان کا اپنا سیاسی بت ہی دھڑام سے نیچے آئیگا۔ اور یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آجائیگی کہ انہیں سیاست میں لانے‘ پروان چڑھانے اور اقتدار کی منزل تک پہنچانے میں سارا عمل دخل اسٹیبلشمنٹ کا ہی تھا جسے وہ اب آنکھیں دکھا رہے ہیں تو بغیر اس سیڑھی کے وہ اب کیسے دوبارہ اقتدار کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی کے بقول اسٹیبلشمنٹ جمہوری نظام کا چلتے رہنا اور اس کا مستحکم ہونا دیکھنا چاہتی ہے تو انتخابی عمل میں اب کسی کے حق میں ڈنڈی مارنے کی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کوئی گنجائش نہیں نکل پائے گی۔ عمران خان اگر اپنی خود غرض سیاست میں جنرل فیض حمید کے ذریعے چودھری پرویز الٰہی اور چودھری مونس الٰہی کو نیب کے مقدمات میں گرفتار کرانے کے درپے تھے جس سے جنرل (ر) باجوہ نے انہیں خلاصی دلائی تو اب وہ عمران خان کا احسان اتارنے کے بعد ان کا سیاسی حلیف بننا کیونکر قبول کرینگے۔
اب رہا 23 دسمبر کا معاملہ کہ اس روز کیا ہونا ہے۔ اگر اس سے پہلے ہی صوبے میں مالیاتی ایمرجنسی کا کوئی چکر چلا کر عدلیہ سے اس کی توثیق کرالی گئی یا گورنر کے ذریعے وزیراعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ کا راستہ نکال کر اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ ٹھپ کرادیا گیا تو عمران خان اسمبلی تحلیل کرانے کا شوق خیبر پی کے اسمبلی کے ذریعے ہی پورا کر سکیں گے۔ ایک اسمبلی کو توڑ کر انکے ہاتھ پلے کیا آئیگا جبکہ وہ اس اسمبلی کے صدقے حاصل ہونیوالی سرکاری پروٹوکول کی سہولتوں سے بھی محروم ہو جائیں گے اور اپنی گرفتاری سے بچنے کیلئے بھی انہیں خیبر پی کے میں کوئی محفوظ ٹھکانہ میسر نہیں آپائے گا۔ تو جناب! اب اپنی انا پرستی والی سیاست میں بس جھنجھنوں کے ساتھ ہی کھلیئے گا‘ کھیلن کو مانگے چاند والا شوق تو اب پورا ہونے سے رہا۔