• news
  • image

کہانی لکھ پتیوں کی 


خبر ہے کہ پاکستان میں لکھ پتی افراد کی تعداد بڑھ کر 35.7 فیصد ہو گئی ہے یعنی لگ بھگ 36 فیصد۔ 
پہلے لکھ پتی کا مطلب سمجھ لیجئے۔ ہمارے سکول بلکہ کالج کے دور میں لکھ پتی سب سے مالدار طبقے کے افراد ہی کو کہا جاتا تھا۔ ہزاروں کے پھیر میں متوسط طبقہ آتا تھا، پھر غریب اور نادار کلاس۔ زمانہ بدلا، ضیاء الحق ایک ہمہ گیر بابرکت دور لے کر نازل ہوئے اور لکھ پتی کی جگہ کروڑ پتی نے لے لی۔ ان کے بعد پرویز مشرف کا اس سے بھی بابرکات دور آیا اور کروڑ پتی کی جگہ ارب پتی آ گئے۔ اس دور میں قاضی حسین احمد اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کے تارے تھے۔ انہوں نے بعض افسروں کے لیے ’’کروڑ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ادھوری لکھی ہے، پوری اصطلاح کچھ اور تھی۔ یہ اصطلاح بہت مقبول ہوئی، اسٹیبلشمنٹ نے برداشت کیا کہ کہنے والے قاضی صاحب تھے، بے نظیر ہوتیں یا کوئی اور یہ بات کہتا تو اگلا بیان دینے کے قابل نہ رہتا۔ قاضی صاحب نے کروڑ کا لفظ استعمال کیا حالانکہ اس وقت سکّے کی مالیت ’’ارب روپیہ‘‘ ہو چکی تھی۔ ان کے بعد اسی ’’ملک زرّیں ‘‘ کا تیسرا دور عمران خان لے کر آئے۔ اس بار تو برکات کی وہ برسات ہوئی کہ ارب پتی افراد کا شمار بھی ’’ماٹھے‘‘ لوگوں میں ہونے لگا۔ ان کی جگہ کھرب پتی افراد نے لے لی۔ یہ سب خان صاحب کے دائیں بائیں تھے، ان کا ’’کاروبار‘‘ قابل رشک تھا۔ 50 سے لے کر /500 ارب تک کا منافع معمول کی کارروائی تھی۔ 
بابرکتی کے اس بے مثال عروج کے دور میں لکھ پتی کہاں کھڑے تھے؟۔ جی، وہ ’’خط افلاس‘‘ کے دوسرے کنارے پہنچ گئے تھے۔ خط افلاس کو اردو میں ’’پاورٹی لائن‘‘ کہتے ہیں۔ نوٹ فرما لیجئے۔ اس کا بھی ایک لطیفہ ہے۔ ہے تو گھسا پٹا لیکن اس کی اصل تشریح اور اصل نفاذ اب ہوا ہے۔ ذرا آ گے چل کر آتا ہے۔ 
_________
اب لکھ پتی اسے کہتے ہیں جو جُھگّے جھونپڑے میں رہتا ہو۔ جُھگے کی لکڑی اندر پڑے چند ٹین کے بکسے، دوچار جھلنگا چار پائیاں، پرانی رضائیاں، کھیس، بوسیدہ برتن بھانڈے مل ملا کر ایک لاکھ روپے کے تو بن ہی جاتے ہیں۔ چنانچہ رپورٹ کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ عالمی غربت انڈکس میں 116 غریب ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 92 ہو گیا ہے۔ یعنی صرف 24 ممالک ، دنیا بھر کے 200 ممالک میں سے ایسے ہیں جو پاکستان یا اس سے بھی زیادہ غریب ہیں باقی سب کا حال پاکستان سے اچھا ہے۔ 
رپورٹ میں ہے کہ پاکستان میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد پھر سے بڑھ کر 35.7 فیصد ہو گئی ہے۔ اسی مناسبت سے لکھا کہ لکھ پتی 35.7 فیصد ہو گئے۔ 
رپورٹ میں ’’پھر سے‘‘ کے الفاظ قابل ملاحظہ ہوں، یعنی پہلے اتنے زیادہ نہیں تھے۔ بے نظیر اور نواز شریف کے باری باری آنے والے ادوار میں یہ تعداد کم ہوئی۔ نواز شریف کے آخری دور میں لگ بھگ 25 فیصد تھی۔ نواز شریف کے آخری دور کے بعد تیسرا کھڑکی توڑ بابرکت دور آیا جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی یہ بابرکت دور بدقسمتی سے آٹھ ماہ پہلے ختم ہو گیا لیکن خوش قسمتی سے جو برکات پائپ لائن میں تھیں، وہ بدستور نازل ہو رہی ہیں۔ 
_________
آگے بڑھنے سے پہلے لطیفہ سن لیجئے۔ کئی عشرے پہلے کی بات ہے، لاہور کے ایک صاحب کراچی گئے۔ انہیں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) میں کسی افسر سے ملنا تھا۔ ریلوے سٹیشن سے باہر آئے اور رکشہ ڈرائیور سے مخاطب ہوئے۔ یہ سوچ کر کہ کراچی اردو دانوں کا شہر ہے، یہاں اردو بولنا ٹھیک رہے گا چنانچہ کہا کہ مجھے ادارہ ترقیاتی کراچی جانا ہے۔ یاد ہو گا کہ تب کراچی میں اردو دان لگ بھگ 80 فیصد تھے، شہر کی ’’پٹھانائزیشن‘‘ ابھی نہیں ہوئی تھی۔ رکشہ ڈرائیور خوش اخلاق تھا اور مہربان بھی۔ اس نے کہا ، یہ نام تو کبھی سنا نہیں، آپ بیٹھئے، میں اِدھر اُدھر سے پوچھتا ہوں۔ پوچھ کاچھ میں بہت لوگ اکٹھے ہو گئے۔ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ادارہ ترقیات کراچی کس کارخانے کا نام ہے لیکن سبھی کی خواہش تھی کہ لاہور سے آئے مسافر کو منزل پر پہنچا دیا جائے۔ آخر ایک بزرگ نے مداخلت کی اور کہا، میاں کچھ نشانی تو بتائو، اس کارخانے میں کیا بنتا ہے۔ مسافر نے کہا، کارخانہ نہیں ہے، آفس ہے، شہر کی تعمیر ترقی، سڑکیں نالے وغیرہ اس کے ماتحت آتے ہیں۔ بزرگ نے ماتھے پر ہاتھ مارا، ارے، کیوں اتنی مشکل انگریزی بولتے ہو، سیدھا اردو میں کہو کہ کے ڈی اے جانا ہے۔ 
آج کل ’’ایلیٹ کلاس‘‘ کی مہربانی سے بول چال کی زبان کچھ یوں ہو گئی ہے کہ ہے، تھا، تھے ، گا ، گی کے الفاظ اردو کے ہیں، بیچ میں سب انگریزی ہے۔ آپ کسی سے کہیئے کہ ذرا تعاون کرے تو وہ حیران ہو جائے گا کہ کیا کرنے کو کہہ رہا ہے۔ اس کی مشکل حل کرنے کے لیے آپ کو بتانا پڑے گا کہ میاں، تعاون کو اردو میں ’’ہیلپ‘‘ کہتے ہیں۔ ماضی قریب میں بولی جانے والی اردو اب صرف بھارت کی فلموں میں نظر آتی ہے۔ اردو مکالموں اور گانوں پر مشتمل ان فلموں کو برعکس نہاد نام زنگی کافور کے مصداق ’’ہندی‘‘ فلم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ خیر، یہ کہانی بھی اب بدل رہی ہے۔ جب سے ساورکر کا جھکڑّ ازسرِ نو سنگ پریوار عرف بی جے پی کی صورت چلا ہے، ان ’’ہندی‘‘ فلموں میں اردو کے الفاظ بتدریج کم اور ان کی جگہ ہندی اور انگریزی کے الفاظ بڑھ رہے ہیں اور تو اور وہ روایت بھی ختم کر دی گئی ہے کہ ٹائٹل پر فلم کا نام انگریزی، ہندی اور اردو میں دیا جاتا تھا، یعنی تین نام اوپر نیچے۔ اب محض ہندی اور انگریزی میں دئیے جاتے ہیں۔ اردو نام غائب ہو گیا۔ مودی تیرا شکریہ، ‘‘۔نہیں مودی جی، آپ کو دھینہ واد۔ 
_________
بات آگے کیا بڑھانی، کالم کی جگہ ہی ختم ہو گئی۔ بہرطور، چند الفاظ اس بارے میں کہ نیپرا کو تجویز دی گئی ہے کہ بجلی کے نرخ فی یونٹ 32 روپے بڑھا دئیے جائیں۔ 
زرداری دور میں بجلی سستی تھی لیکن لوڈشیڈنگ بہت تھی۔ نواز شریف نے لوڈشیڈنگ ختم کر دی لیکن بجلی تھوڑی مہنگی کر دی۔ لوگ بڑے ناراض ہوئے۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ اس کے بعد عمران خان کی حکومت 8 روپے یونٹ والی بجلی 32 روپے کر دے گی۔ اب یہ 32 روپے 64 روپے ہونے والے ہیں۔ لگتا ہے، لکھ پتیوں کی تعداد بڑھ کر 80 فیصد ہونے والی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ!!!
_________

epaper

ای پیپر-دی نیشن