• news
  • image

سرکاری واجبات کی وصولی میں سختی سے کام لینا ہوگا

تحریر: سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com

ملک میں جاری معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے درپیش مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔  خاکم بدہن بعض بد خواہوں کی جانب سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات کا اظہاربھی کیا جا رہا ہے ۔ملکی معیشت بلا شبہ دباؤ کا شکار ہے، منگل کو اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رحجان رہا اور 82 فیصد حصص کی قیمتیں گر گئیں۔ صرف منگل کو ہی انڈیکس میں 1100سے زائد پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی جس سے انڈیکس 40 ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد برقرار نہ رکھ سکا۔ یہی صورتحال صرافہ مارکیٹوں میں رہی اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سونے کی قیمت میں ایک روز کے دوران سب سے زیادہ 3900 روپے تولہ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور مقامی مارکیٹ میں فی تولہ سونے کی قیمت 1 لاکھ 78 ہزار روپے سے تجاوز کر گئی، تو ڈالر کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کرتی رہی۔ مارکیٹ کا یہ رحجان بدھ کے روز بھی جاری رہا اور حصص بازار میں انڈیکس میں مزید 490 پوائنٹس کی کمی ہوئی اور انڈیکس 39 ہزار 343 پوائنٹس پر بند ہوا جو 26 ماہ کی کم ترین سطح ہے۔
26  ماہ قبل ہم تحریک انصاف کے نیا پاکستان میں ایک سال تین ماہ کا عرصہ گزار چکے تھے مگر عمران خان کی اور کے لائے ہوئے مشیروں وزیروں کی حکومت جب بھی ہمارے لئے خسارے کا سودہ ثابت ہو رہی تھی ۔یہی نہیں آج ملک جس نئے پاکستان کے سفر سے لوٹا ہے ،معیشت کا حال ماضی کے ا نہی جھوٹے دعوں کا نتیجہ ہے ۔  اس سے قبل نومبر 2020 میں بھی انڈیکس 39 ہزار پوائنٹس کی سطح تک گرگیا تھا۔ تاہم معاشی ماہرین کے مطابق اسٹاک ایکسچینج میں گزشتہ تین سیشنز میں 4.7 فیصد یعنی 1ہزار 959 پوائنٹس کی تشویشناک کمی ہوئی۔ اس دوران سرمایہ کاری کے حجم میں 2 کھرب 68 ارب سے زائد کی کمی ہوئی۔ نئی مخلوط حکومت کی آمد سے اب تک اسٹاک مارکیٹ میں 5 ہزار 102 پوائنٹس کی  کمی ہوچکی ہے جس سے اب تک حصص بازار میں 14 کھرب سے زائد سرمایہ کاری کو نقصان  پہنچا ہے۔  
یہ تو شیئرمارکیٹ کی صورتحال تھی دوسری جانب پاکستان میںبجلی گیس کی مینجمنٹ کیلئے حکومت کو شادی ہالوں ،بڑی مارکیٹوں کے  اوقات کار مقرر کرنے پڑے ہیں تاکہ صنعتوں کا پہیہ چلتا رہے۔ انتظامیہ کو اس کیلئے سختی کا رویہ اختیار کرنا ہو گا اس کے علاوہ واجب الادا    سرکاری رقوم کی ذمہ داران سے وصولی کو یقینی بنانا ہو گا۔میڈیا پر بین الاقوامی کمپنیوں کی خبریں  بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں جس میں انہوں نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان میں ایل سیز کے اجراء میں رکاوٹ سے کاروبار چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہی صورتحال معروف کار ساز کمپنی کی بھی یے جس نے چند روز قبل اسٹاک ایکسچینج کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ایل سیز جاری نہ ہونے کے باعث پیداواری عمل جاری رکھنا دشوار ہے۔ اسی لئے کمپنی نے 20 دسمبر سے 30 دسمبر تک گاڑیوں کی تیاریاں عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا۔ بعض کمپنیز سال کے اختتام پراسی  دورانیے میں تعمیر مرمت اور سروس کیلئے بھی  اپنی صنعتیں بند کر لیتے ہیں۔ ایک ماہ تک  ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ انڈسٹری  کا بند ہونا   ہزاروں سے  ڈیلی ویجز ملازمین کوبے روزگار کر دیتا ہے ۔ اگر ملازمیں کو ملازمت کا تحفظ حاصل نہ رہے تو ایسی صورتحال  سے معیشت کیلئے بھی خدشات لاحق ہوتے  ہیں۔ اس سلسلے میں معروف تاجر رہنماؤں نے بتایا ہے کہ پورٹ پر پھنسے کنٹینرز، ایل سی کے اجراء رکاوٹ سے ٹیکسٹائل، پولٹری، فارما اور کیمیکل انڈسٹری متاثر ہوئی ہے۔ صنعتکاروں اور تاجروں نے خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ اگر حکومت نے فوری کوئی اقدام نہ کیا تو ملک میں بے روزگاری کا ایسا طوفان آئے گا جس سے نمٹنا حکومت کیلئے ناممکن ہوجائے گا۔ معیشت کو ہونے والے لا تلافی نقصان سے بچنے کیلئے حکومت کو فوری طور پر حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے اور ایل سیز کو کھولنے میں تاخیر کی تو آنے والے دنوں میں ملکی معیشت کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔ سرمایہ کار انڈسٹری بند کرکے سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کی سوچ رہے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری پہلے ہی نصف رہ چکی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ شاید حکومت اور سیاسیقیادت کو درپیش معاشی مسئلہ کی سنگینی کا ادراک نہیں ۔ اگر ملک میں سرمایہ کاری نہ ہوئی، انڈسٹری  کا پہیہ رکا  تو پاکستان کو مزید مشکلات لاحق ہوجائیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن