کیا دنیا عالمی انقلاب کی لپیٹ میں آنےوالی ہے؟
حالیہ دنوں جرمنی میں وسیع الطبقاتی بغاوت ہوئی ہے۔ یہ لوگ حکومت کا تختہ الٹ کر ایک سو پانچ سال پرانی بادشاہت بحال کرنا چاہتے تھے۔ باغیوں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی، جج اور سیاستدان شامل تھے۔ بغاوت کے سرغنہ کے طور پر پرنس ہنرخ 13کا نام لیا جاتا ہے۔ اسکے حامیوں کی تعداد تو لاکھوں میں ہو گی تاہم جو سرگرم ہیں وہ پچیس ہزار بتائے جاتے ہیں۔ جرمنی میں بادشاہت 9نومبر1918ءمیں پہلی جنگ عظیم کے خاتمے سے دو روز قبل ختم کی گئی تھی۔ بادشاہت کے حامی آج بھی جرمنی کو عظیم بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ہٹلر بھی ایسا ہی چاہتا تھا اور سرگرداں بھی ہو گیا تھا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اسے شکست ہوئی مگر جرمنوں کے عظیم تر بننے کے نظریئے کو دبایا نہیں جا سکا۔ بغاوت پر آمادہ اُسی نظریئے کے قائل اور پیروکار لوگ ہیں۔ انکی بغاوت کے پس منظر میں برتر قومیت کا نظریہ ہے۔ ہنرخ13نے ایک شیڈو حکومت بنائی ہوئی ہے۔ وہ اور اسکے حامی بہت سے قوانین کو نہیں مانتے۔ اب انہوں نے باقاعدہ ”کو“ کرنے کی کوشش کی مگر گرفت میں آ گئے۔ فوجیوں اور کچھ ججوں سمیت 25بڑے بڑے لیڈر گرفتار ہوئے۔ اسلحہ برآمد ہوا۔اس کیلئے گیارہ جرمن ریاستوں اور دو یورپی ملکوں اٹلی اور آسٹریا میں چھاپے مار ے گئے۔ ان ملکوں کی پولیس کی مدد سے ہی ہر آپریشن ممکن تھا۔تو یہ آپریشن مکمل ہوا۔ انقلابیوں کا ایک مددگار ایک روسی شہری بھی اس دوران گرفتار کیا گیا۔کہا جا رہا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں کسی بھی کارروائی کیلئے یہ سب سے بڑا آپریشن تھا کہ پولیس فورس اور سیکورٹی ایجنسیز کے تین ہزار سے زائد افراداس آپریشن میں شامل تھے۔زندہ اور ترقی یافتہ قومیں بھی آزادی کو معاشی ترقی اورجدید سہولتوں آراستہ و پیراستہ زندگی پر ترجیح دیتی ہیں۔ جرمنی آج کے پاکستان سے 5 سو سال آگے ہے۔ خصوصی صنعتی ، ڈیجیٹل ترقی اور ایک فلاحی ریاست کے طور پر جو آج عوام کو میسر ہے بحیثیت پاکستانی ہمارے خوابوں کی پرواز بھی شائد اتنی نہیں۔ جرمنی یورپ کے 46 مملکت میں سب سے ہر لحاظ میں نمبر ون ہے۔آٹھ کروڑ آبادی ہے۔دنیا کی کونسی آسائش ہے جو ان کو میسر نہیں مگرانکے اندر قومیت کا بے پایاں جذبہ اور فاتحِ عالم بننے کا جنون ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جرمن مکمل تباہ ہو گیا تھا اور اس کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا ایک مشرقی جرمنی اور دوسرا مغربی جرمنی ، اور 45 سال مشرقی اور مغربی جرمن دیوار برلن کو برداشت کرتے رہے اور جب سویت یونین میں گورباچوف کی وجہ سے انقلاب آیا تو جہاں وسطی ایشیائی ریاستیں ازبکستان، ترکمانستان آرمینیا، منگولیا اور آذربائیجان اور بیلارس یوکرائن اور ڈیڑھ درجن ریاستوں کو آزادی ملی وہیں دیوار برلن میں بھی جابجاپُر نہ ہونیوالے شگاف پڑ گئے اور پھر ایک دن یہ دیوار عوامی طاقت سے مسمار کر دی گئی۔ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی پھر سے ایک ہوگئے مگر خوشحال جرمنی کے عوام کے دلوں میں اب بھی امریکی سامراج کےخلاف نفرت کا لاوا پک کر جوالہ مکھی بن چکا ہے۔ میں چونکہ 35 سال سوئس اور جرمن میں تعلیم اور پروفیشنل زندگی گزار چکا ہوں لہٰذا اس خطے کی سیاست اور کلچرل و مزاج کو خوب سمجھتا ہوں میرے نزدیک حالیہ بغاوت یا ” کو“ مستقبل میں کسی بڑے انقلاب کی دستک ہے اور عوامی مزاج کو نہ سمجھتے ہوئے یورپ کے حکمران جس پہلو کو نظر انداز کر رہے ہیں وہی کل کو دنیا کا جغرافیائی اور ثقافتی نقشہ بدلنے کا موجب بنے گا۔دراصل پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور ترکی ، اٹلی اور جاپان ایک طرف اور باقی یورپ اور ایشیا کی طاقتور قوتیں ایک طرف تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکی سرکار نے برطانیہ کےساتھ ملکر شکست کھانے والے ان چاروں ممالک پر جبری معاہدے مسلط کر دئیے تھے کہ جاپان اور جرمنی 90 سال تک ان ملکوں میں امریکی فوجی اڈے رکھیں گے جبکہ ترکی کو سزا کے طور پر ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور عثمانیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور جس معاہدے کےمطابق چند دن کے بعد نئے آنےوالے سال 2023ءمیں اس معاہدے کی مدت پوری ہورہی ہے۔ وہاں بھی ترک قومیت پسند جنونی ہیں وہ بھی اپنی اسی شان و شکوہ کی طرف لوٹ رہے ہیں جو ان کا طرہ¿ امتیاز تھی اور انکی جہانِ پر ایک دھاک تھی۔وہ پرامن طور پر اپنا کھویا مقام حاصل کرلیں گے مگر جرمن میں چونکہ ایسا کوئی امکان نہیں لہٰذا وہاں اپنے مقصد کے حصول تک بغاوتیں سر اٹھاتی رہیں گی۔آپ نیشنلزم کو وقتی طور پر دبا سکتے ہیں کُچل نہیں سکتے۔ہم بھی پاکستان میں نیشنلزم کو پروموٹ کرتے ہیں اس کیلئے پنجاب نیشنل پارٹی وجود میں آئی ہے اور ہماری جدوجہد پُرامن ہے۔
قارئین! آپس کی لڑائیوں اور اختلافات کو بھلا کر بحیثیت ایک قوم سوچیے کہ ہمارے آج کے تنازعات کی وجہ سے اگر ہم معاشی دیوالیہ پن کی دلدل میں پھنس گئے اور پاکستان جو پہلے ہی چار پانچ مختلف قومیتوں کا گلدستہ ہے (یاد رہے کہ قومیں مذہب سے نہیں مقامی ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں)اور ہمیں اپنے سروائیول کیلئے پاکستان کی مقامی قومیتوں کو حقوق دینا ہونگے وگرنہ نصیب دشمناں ہمارے پاس سابقہ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش بن چکا ہے کی مثال اورتلخ سبق موجود ہے۔