گورنر نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کر دیا:فیصلہ مسترد:پرویز الہیٰ،تحریک یصاف
لاہور (نمائندہ خصوصی ‘نامہ نگار‘نوائے وقت رپورٹ) گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے مطابق پرویز الٰہی اب وزیراعلیٰ پنجاب نہیں رہے۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کیا۔ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کیا جاتا ہے۔ پرویز الٰہی نئے قائد ایوان کے چناؤ تک عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے مقررہ دن اور وقت پر اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کیا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یقین ہے وزیراعلیٰ کو اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں۔ اس نوٹیفکیشن کے بعد پنجاب کابینہ ختم ہو گئی ہے۔ قبل ازیں گورنر ہاؤس میں آئینی ماہرین اور قائدین سے مشاورت کا طویل سلسلہ جاری رہا جس کے بعد نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا گورنر پنجاب کا نوٹیفکیشن مسترد کر دیا۔ فواد چودھری نے کہا کہ نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ وزیراعلیٰ اور کابینہ فرائض انجام دیتی رہے گی۔ گورنر پنجاب کے خلاف ریفرنس صدر کو بھیجا جائے گا۔ گورنر کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ قبل ازیں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ گورنر کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنا ہی کرنا ہے۔ عطاء تارڑ نے کہا کہ 48 گھنٹے گزر چکے ہیں سپیکر کو خط بھی جا چکا ہے۔ وزیراعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ کا معاملہ آج عدالت جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں ن لیگ کا کیس بہت مضبوط ہوگا۔ عطاء تارڑ کا کہنا تھا کہ پرویزالٰہی کا مفاد اس میں ہے کہ معاملہ تاخیر کا شکار ہو۔ گورنر نے کہا کہ موجودہ سیشن میں اعتماد کا ووٹ لیں یا نیا سیشن بلائیں۔ پرویز الہی نے کہا ہے کہ گورنر کے اقدام کے خلاف آج عدالت جائیں گے، گورنر کے نوٹیفیکیشن کو نہیں مانتے، یہ غیر آئینی ہے جب پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہی نہیں ہوا تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گیا۔ دوسری طرف چیف سیکریٹری پنجاب نے گورنر کے احکامات پر عملدرآمد کا آڈر جاری کر دیا ۔
وزیراعلیٰ ڈی نوٹیفائی
لاہور (خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا ہے کہ اسمبلی آج نہیں ٹوٹ سکتی، شاید جنوری میں جاکر یہ کام ہو۔ سبطین خان نے اسمبلی احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نے ایک خط لکھ کر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا، میں نے جواب میں کہا کہ گورنر اجلاس بلوا سکتے ہیں اعتماد کے ووٹ کیلئے مگر وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی نہیں کر سکتے، آرٹیکل 130 (7) کے مطابق گورنر کو نیا اجلاس طلب کرنا ہوتا ہے، موجودہ چلتے ہوئے سیشن کے دوران گورنر نیا سیشن نہیں بلا سکتے تھے اور میں نے یہی جواب لکھ کر بھیج دیا۔ سبطین خان کا کہنا تھا کہ سپیکر کی رولنگ چاہے ایوان میں دی جائے یا چیمبر میں، وہ موثر ہوتی ہے۔ مجھے وزیراعلیٰ کو بچانے کا نہ بچانے کا کوئی مسئلہ نہیں، میں آج دوبارہ گورنر کو خط لکھ رہا ہوں، آرٹیکل 209 اے اور 235 کے تحت میرے پاس مکمل اختیارات ہیں، گورنر غیرآئینی احکامات جاری نہ کریں، آئین و قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہوگا۔ اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق سوال کے جواب میں سبطین خان نے کہا کہ ابھی تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے، اس پر کارروائی کرنے میں اتنا وقت لگے گا، آج کیسے ٹوٹ سکتی ہے، ابھی اس پر نوٹس ہونا اور اسے ارسال کرنا ہے، اس میں وقفہ بھی ہوتا ہے، ایم پی ایز کو بلایا جاتا ہے، بہت جلدی بھی ہوئی تو شاید جنوری کے پہلے ہفتے میں جا کر اس پر ووٹنگ وغیرہ کا مرحلہ مکمل ہوگا۔ سپیکر اسمبلی نے کہا کہ سیشن چل رہا ہو یا نہ چل رہا ہو، گورنر وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی نہیں کر سکتے، اگر وہ ڈی نوٹیفائی کرتے تو ہمارا صدر کو لکھا جانے والا خط تیار ہے، وہ ہم بھیج دیتے۔ ہم فوری طور پر اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد کا معاملہ آ گیا جس کی وجہ سے معاملہ تاخیر کا شکار ہوا۔ سبطین خان نے مزید کہا کہ میرے اور ڈپٹی سپیکر کیخلاف تحاریک عدم اعتماد پر قانون کے مطابق کارروائی ہو گی، میں وزیراعلی اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے اجلاس کی صدارت کر سکتا ہوں۔ محمد سبطین خان نے کہا دوبارہ گورنر پنجاب کو خط لکھ رہا ہوں۔ جوابی خط میں لکھا ہے کہ گورنر پنجاب نے خیال احمد کو وزارت دینے اور حسنین بہادر دریشک کے بارے میں جو کہا‘ وہ پی ٹی آئی کا اندرونی معاملہ ہے۔ سپیکر نے کہا کہ گورنر پنجاب یہ چاہتے ہیں کہ ہم عوام کے پاس نہ جائیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا وزیراعلیٰ کی حفاظت میرا کام نہیں‘ میں نے صرف ایوان کا تقدس یقینی بنانا ہے۔ گورنر اگر آئینی ادارے کی نمائندگی کر رہے ہیں تو سپیکر بھی آئینی ادارے کی نمائندگی کر رہا ہے۔ ہر کوئی اپنے آئینی دائرہ میں رہ کر اپنا اپنا کام کرے۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے کہا ہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا ہے اور پنجاب اسمبلی کی صورت حال واضح ہونے کے بعد پارٹی قیادت کی ہدایت پر عمل کروں گا۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہوں لیکن ابھی تک عمران خان نے مجھے اسمبلی تحلیل سے متعلق کوئی ہدایت نہیں کی۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی بیرسٹر محمد علی سیف نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل عمران خان کے حکم کے مطابق ہوگی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے سمری ابھی تک تیار نہیں کی۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد خیبر پی کے اسمبلی تحلیل کی جائے گی۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 2 روز کے وقفے کے بعد آج دوبارہ ہوگا۔ اجلاس سپیکر سبطین کی زیر صدارت 2 بجے ہوگا۔ اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا آغاز ہوگا۔