2002ء کے پرویز الٰہی، اب کیا ہوا؟
145روز پر محیط پنجاب کی پگ پرویز الٰہی اور صوبے کے لئے کیسی رہی۔ اگر پرویز الٰہی کے آخری وزارت اعلیٰ کے ادوار کا ذکر کیا جائے تو موزانہ کیا جاسکتا ہے کہ ماضی میں وزارت اعلیٰ بہت کامیابی سے چلائی گئی تھی اور چودھری پرویز الٰہی کی عزت اور شہرت میں اضافے کا باعث بنی تھی مگر اس مرتبہ مختصر عرصے کی وزارت اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے لئے بدنامی، مس مینجمنٹ اور کرپشن میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے کے لیبل کا باعث بنی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟
جب پرویزالٰہی نے 2002ء میں وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا تو انہوں نے شہبازشریف، نوازشریف ماڈل کو فالو کیا جس کے مطابق اُن کے سیکرٹری جی ایم سکندر تھے جو بیوروکریسی کے حلقوں میں انتہائی مثبت شہرت رکھتے تھے۔ اب پرویز الٰہی کے پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی ہیں موازنہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ پنجاب حکومت کے سینئر وزیر میاں اسلم اقبال ہیں جو پرویز الٰہی کی پچھلی کابینہ میں سب سے جونیئر وزیر تصور کئے جاتے تھے۔ وزیر قانون سینئر پارلیمینٹرین راجہ بشارت تھے۔ اب شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان خرم ورک ہیں۔ اندازہ لگا لیں۔ مرحوم ارشد لودھی، اختر حسین رضوی اور سینئر پارلیمینٹرین پرویز الٰہی کی کابینہ کا حصہ تھے۔ اب اُن کی جگہ جونیئر اور ناتجربہ کار وزراء نے لے لی ہے۔ پہلے چودھری پرویز الٰہی کو ہمہ گوش چودھری شجاعت حسین کے مفید مشورے اور سیاسی چالیں چلنے پر رہنمائی حاصل تھی۔ اب اُن کی جگہ چودھری مونس الٰہی نے لے لی ہے۔ اُس وقت منجھے ہوئے بیوروکریٹس کی ایک ٹیم چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ تھی جس میںحفیظ اختر رندھاوا، سلمان صدیق، کامران رسول، سبطین فضل حلیم، سلمان غنی، تیمور عظمت عثمان، اخلاق احمد تارڑ شامل تھے۔ اب پنجاب میں انہیں بیوروکریٹک پُش و رہنمائی کے لئے چیف سیکرٹری پنجاب عبداللہ خان سنبل، کیپٹن اسد کے علاوہ کوئی معیاری افسر نظر نہیں آتا۔ عبداللہ خان سنبل سول بیوروکریسی میں اپنی فیملی کی دوسری لڑی ہیں۔
عبداللہ خان سنبل کے والد بیوروکریسی میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے ان دونوں بھائیوں کی پرورش کی۔ عبداللہ سنبل اور ان کے بھائی اولڈ راوین ہیں ان کے بھائی بھی مقابلے کا امتحان نمایاں پوزیشن میں پاس کر کے سول بیوروکریسی جوائن کر چکے تھے۔ مگر جلد ہی وہ ہار مان کر اپنی قابلیت گوروں کے حوالے کرنے چلے گئے۔ عبداللہ سنبل نے ہار نہ مانی اور آج وہ چیف سیکرٹری پنجاب کا منصب سنبھالے بیٹھے ہیں۔
وہ پوری دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انہی کے مشورے پر پرویز الٰہی نے صوبے میں تعمیری کام کئے ہیں اب جبکہ چوہدری پرویز الٰہی نے صوبے میں کفایت شعاری پالیسی کے جائزہ اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں ڈی جی پی آرکے افسران کے لیے نیلام کی گئی 68 گاڑیوں کے عوض نئی گاڑیاں خریدنے کی سمری مسترد کرنے کے علاوہ صوبے میں نئی گاڑیاں خریدنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے مگر محکمہ خزانہ نے اس پابندی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے وزیراعلی کے لیے کرائے پر جہاز لینے کی سمری کی سطح ہموار کرنے کی کوشش کی۔ کفائیت شعاری مہم میں سرکاری اخراجات تو کم کرنے کی بات کی گئی مگر سپیکر پنجاب اسمبلی کے مال روڈ پر واقع سپیکر ہاؤس کی تزئین و آرائش (تعمیر نہیں)کے لیے اور انکے دفاتر کے لیے 29 کروڑ کی خطیر رقم بھی جاری کردی گئی۔ اگر آپ ماضی قریب میں جائیں تو سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے کروڑوں کے بجٹ سے سپیکر ہاؤس کی تعمیر نو کروائی تھی جبکہ اربوں روپے سے نئی پنجاب اسمبلی کو تعمیر ہوئے کوئی لمبا عرصہ نہیں ہوا۔
چودھری پرویز الٰہی نے کفایت شعاری مہم کے آغاز ہی میں بیوروکریسی کے لئے پچاس فیصد اضافی فنڈ کی منظوری دے کر ماہانہ صوبے کو ایک ارب روپے خسارے کی طرف دھکیلا ۔ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری نے سپر اضلاع کے باسی سرکاری افسروں کے لئے سو سرکاری گھر فوری طور پر مہیا کئے جانے بارے اسٹیٹ آفس کو سخت ہدایات جاری کردیں۔
محکمہ ایکسائز کے بعد دوسرے محکموں میں بھی اُن کی ریت پر چلنے ٹھان لی گئی۔ محکمہ پرائمری ہیلتھ اور سپیشلائزڈ ہیلتھ میں سینکڑوں ڈاکٹروں کی آسامیاں لاکھوں روپے کے عوض بیچی گئیں جس پر محکمہ کے وزیر موصوف اختر ملک اور محترمہ یاسمین راشد کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا مگر وزیراعلیٰ اور انکے پرنسپل سیکرٹری کے علاوہ عمران خان پر بھی پیسے لینے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔
محکمہ آبپاشی میں خدمات انجام دینے والے سیکرٹری رائے منظور ناصر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی پروفیشنل اور محنتی آفیسر ہیں مگر شاید انہیں پی ایم ایس گروپ کی وجہ سے متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ رائے منظور ناصر کی کردار کشی مہم کے بعد وہ بھی ڈٹ گئے اور متعلقہ زونز میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن کا حساب مانگ لیا۔ افسران کی آپس کی لڑائی میں ترقیاتی کام ٹھپ ہو گئے ہیں۔ سیلاب زدہ پنجاب کی بحالی کی بجائے افسران کی آپس کی لڑائی روز کا معمول بن گئی ہے۔ اگر سیکرٹری آبپاشی چیف انجینئرز کو کرپٹ سمجھتے ہیں تو اُن کو فوری طور پر معطل کر کے انکوائری لگا دینی چاہئے۔