• news

’’جاندار‘‘سفارتی تحائف:گر قبول افتد۔۔ 


مختلف ممالک اور ملکی سربراہان کے درمیان تحائف کے تبادلے کی روایت بہت پرانی ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں اسکی ایک اپنی اہمیت ہے۔کسی ملک سے آئے مہمان بلکہ ’’مہان‘‘کا استقبال کرنا ہویا بین الاقومی تقریب میںکسی اہم غیرملکی شخصیت کو عزو شرف بخشنا ہو،تحائف کا سہارا لیا جاتا ہے۔یہ تحائف کہیں بین الممالک دوستی کی علامت ہوتے ہیں توکہیں دوستی کی طرف قدم بڑھانے کا اشارہ۔1885میں فرانس کے عوام کی جانب سے انقلاب امریکہ کے 100 سال مکمل ہونے پر مجسمہ آزادی کا تحفہ پیش کیاگیا۔ مجسمے میںکھڑی خاتون کے پیروں میں ٹوٹی ہوئی زنجیر ، دائیں ہاتھ میں ایک مشعل اوربائیں ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس پر امریکہ کے اعلانِ آزادی کی تاریخ 4جولائی 1776درج ہے۔سفارتی تحائف کی تاریخ میں کہیں ہیرے، جواہرات،نایاب پتھر اورگاڑیوں جیسی قیمتی اشیا ملتی ہیں تو کہیں آلو،وہیل مچھلی کے دانت اور مگر مچھ جیسی دلچسپ و عجیب چیزیں بھی شامل ہیں۔ مگرمچھ کی کیا بات،2011میں ایک دورے کے دوران میں آسٹریلیا کی حکومت نے امریکی صدر اوباما کو مگر مچھ کے بیمے کا تحفہ دیا۔اگر کوئی مگر مچھ اوباما پر حملہ کرتا تو آسٹریلیا کی جانب سے مشل اوباما کوانشورنس کے پچاس ہزار آسٹریلین ڈالر ملنے تھے۔اس پیشکش پر صدر اوباما کی حسِ مزاح جاگی اور بولے :’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ جب ہم امریکہ میںصحت کے شعبے میں اصلاحات لائے تو مگر مچھ بیمہ لانابھول گئے‘‘۔ 
کئی صدیوں سے جانور سفاتی تحائف کا حصہ ہیں۔ان میں شیر اور ریچھ جیسے طاقتور،گھوڑے اور ہاتھی جیسے مضبوط اور پانڈا جیسے خوبصورت اور بھاری بھرکم چھپکلی (ڈریگن) جیسے عجیب و غریب جانور شامل ہیں۔ 1972 میں امریکی صد ر رچرڈ نکسن نے خاتونِ اول پیٹ نکسن کے ہمراہ چین کا تاریخی دورہ کیا۔وزیراعظم ژواین لائی کی میزبانی میں بیجنگ میں عشائیہ کے موقع پر خاتون ِ اول نے اپنے سامنے چینی سگریٹوں کا ایک ڈبہ دیکھا جس پر دو بڑے پانڈا کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ’’یہ کتنے پیارے ہیں،مجھے بہت اچھے لگے‘‘اس پر چینی وزیر اعظم نے خاتونِ اول کو جواب دیا : ’’میں آپ کو کچھ پیش کروں گا‘‘۔خاتون ِ اول نے پوچھا : ’’سگریٹ؟‘‘۔ ژواین لائی بولے :’’نہیں،پانڈا‘‘۔دو ماہ بعد سخت حفاظتی انتظامات میں دو پانڈا چین سے امریکہ پہنچے اورانہیں شمال مغربی واشنگٹن کے قومی چڑیا گھر میں منتقل کردیا گیا۔ چند دن تک ہزاروں افراد انہیں دیکھنے آتے رہے۔ چینی حکومت نے برطانیہ اور ملائیشیا سمیت کئی دیگر ملکوں کو بھی پانڈا بھجوائے اور اس عمل کو ’’پانڈا ڈپلومیسی‘‘کہا جانے لگا۔ 
وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو 1996میںایک سرکاری دورے کے دوران میں شہنشاہِ جاپان سے دریائے سندھ کی پلّامچھلی بھیجنے کا وعدہ کر بیٹھیں۔ اب مشکل یہ آن پڑی کہ پلا مچھلی کس طرح جاپان پہنچائی جائے؟کئی بار ایسا ہوا کہ مچھلی بھیجنے کی تیاری ہوئی، سفارتی پیغامات کا تبادلہ ہوا،دونوںملکوں کیؤ ایئر پورٹ پر محکمہ خارجہ کا عملہ پہنچا لیکن مچھلی کا اصرار تھا کہ’’میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال ‘‘۔ کبھی مچھلی کی ترسیل کے حوالے سے کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہو جاتی تو کبھی مچھلی حیدر آباد سے کراچی جاتے ہوئے دورانِ سفر ہی آخرت کا سفر باندھ لیتی۔جاپان تک لذتِ کام و دہن کایہ سامان نہ پہنچایا جاسکا۔ سری لنکا نے 1985میں پاکستان کو کاون ہاتھی کا تحفہ دیاجسے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں رکھا گیا۔اس ملک میں جہاں انسانوں کو صحت اور رہائش کی بنیادی سہولتیںمیسر نہیں،وہاں جانوروں کی مناسب نگہداشت کہاں ممکن تھی؟ چڑیا گھر کے نامساعد حالات کے سبب اس تنہا ہاتھی کی زندگی تکلیف میںگزر رہی تھی کہ 2020میںبین الاقوامی مہم کے زیرِ اثراسے کمبوڈیا میں ایک محفوط پناہ گاہ ( سینکچوئری) منتقل کردیا گیا۔ وہاں آٹھ برس بعد اس نے کسی دوسرے ہاتھی کو دیکھا ۔ یوں ہم نے اپنی بدانتظامی اور بے حسی سے نہ صرف خودکو اس تحفے کے لیے نااہل ثابت کیابلکہ جگ ہنسائی اور رسوائی کا باعث بنے۔ 
فروری 2013میںمغربی افریقہ کے ملک مالی کی حکومت نے فرانس کے صدر فرانکوئس ہالینڈ کو ایک اونٹ کا بچہ تحفہ دیا۔پہلے تو صدرہالینڈ نے ویکسین لگوا کر ا س اونٹ کو فرانسیسی چڑیا گھر میں رکھنے کا سوچا لیکن بعدازاں صحراکے اس جانور کے لیے فرانس کی سخت آب و ہوا کو ناموافق پاکر اسے ساتھ لے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اونٹ کے اس بچے کو ٹمبکٹو میں ایک فیملی کے پاس چھوڑ دیا گیا کہ وہ اسکی دیکھ بھال کرے ۔ اس فیملی نے اس اونٹ کو دو ماہ خوب دیکھا اور پھرایک دن ذبح کرکے روایتی ہانڈی کا مزہ لیا۔ یہ دلچسپ واقعہ عالمی میڈیا کے ہاتھ لگا جس پر مالی کی حکومت کوشرمندگی اٹھا نا پڑی اور انہوں نے پہلے سے بہتر اونٹ کا تحفہ دینے کا وعدہ کیا۔ اس پر ایک فرانسیسی نے سوشل میڈیا پر لکھا ؛’’ہماری سپیشل فورسز فوری جا کرنیا اونٹ لائیں، اس سے پہلے کہ وہ کھاپکا لیا جائے‘‘۔
2012میں کولمبیا کے ایک قصبے کے مقامی افراد نے امریکی صدر اوباما کو تحفے میں ایک گدھا پیش کیا ۔اوباما نے شکریہ ادا کیا اور بغیر گدھے کے واپس لوٹ گئے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ اس کے باوجود طاقت کے خمار میں ایک حمار امریکہ میں آ بیٹھے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن