• news

قائداعظم محمد علی جناح 


کوئی بھی قوم بغیر کسی لیڈر،رہنما، پیشوا،ا مام کے منزل کا تعین کر سکتی ہے اور نہ ہی وہ مقاصد طے کر سکتی ہے جو بطور قوم طے کر لئے جائیں۔قوموں کی زندگی میں کسی ایسے لیڈر، رہنما اور امام کا ہونا کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں ہے جو قوم کی درست سمت کا تعین بھی کرے اور انہیں اس سمت نہ صرف لے کر جائے بلکہ منزل پر پہنچا کر ہی دم لے۔ پاکستان اورپاکستانی عوام خوش قسمت ہیں کہ انہیں قائداعظم محمد علی جناح کی صورت میں ایسا رہنما و قائد میسر تھا جس نے بر صغیر کے مسلمانوں کو غلامی کے اندھیروں سے نجات دلانے کیلئے ایک مقصد متعین کیا اور پھر اس مقصد کیلئے نہ صرف رہنمائی کی بلکہ اپنی جان تک لگا دی یعنی پاکستانیت کی کوئی اعلی مثال تھے تو وہ صرف محمد علی جناح ہی تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے انتہائی مختصر عرصے میں مسلمانان بر صغیر کو نہ صرف علیحدہ ملک لے کر دیا بلکہ اس ملک کو چلانا کیسے ہے اس کا آئین کیا ہو گا، اس کے قوانین کیسے ہوں گے یہ سب متعین کر دیا۔
 آج جب ہم تاریخ کا پاکستان اور بھارت کے موجودہ حالات سے موازنہ کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ قائد نے آج سے سو برس قبل ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ مسلمانان ہند کا ہندوؤں کے ساتھ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا اور اسی ایک مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جان کھپا دی اور مسلمانوں کو الگ وطن لے کر ان کی زندگیاں آسان کر دیں۔ آج ہم جس آزاد پاکستان میں سانس لے رہے ہیں یہ قائد اعظم مرحوم کی کوششوں کا ہی مرہون منت ہے اور پاکستان کے حصول کیلئے قائداعظم انگریزوں کے ساتھ ساتھ کانگرس اور عیار ہندوؤں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹ کر کھڑے رہے۔ قائداعظم محمد علی جناح سے جب پوچھا جاتا کہ وہ نئے ملک کا مسلمانوں کیلئے مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ ملک کیسا ہو گا اس کا آئین کیسا ہو گا اس کے قوانین کون مرتب کرے گا۔ تو حضرت قائداعظم نے ناقدین کو جواب دیا کہ آپ کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرور ت نہیں ہے کیونکہ ملک پاکستان کا آئین آج سے چودہ سو سال پہلے ہی قران و حدیث کی صورت میں متعین کر دیا گیا تھا اور پاکستان کے باشندے اپنی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق گزاریں گے۔ناقدین آپ پر سیکو لر ہونے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ حضرت قائداعظم نے کہا کہ مسلمانوں کو ایک چیز جوڑے ہوئے ہے اور وہ رب کی کتاب اور نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جومسلمانوں کو ایک ساتھ جوڑے ہوئے ہے اور مسلمانان پاکستان کے درمیان بھی یہی اساسی رشتہ قران مجید کی صورت میں موجود ہے۔ اس وقت بر صغیر کے جو حالات تھے ان حالات میں مسلمانوں کیلئے الگ وطن لے کر پھر اسے مضبوط بنیاد فراہم کرنا ہی قائداعظم کا اتنا بڑا کارنامہ ہے جو انہیں دنیا بھر کے رہنماؤں میں نمایاں کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے انتھک جدوجہد کے ذریعے اپنی بیماری کی پروا بھی نہ کرتے ہوئے اپنی ذاتی ذندگی کو بھی قربان کیا اور پاکستان کے حصول کیلئے دن رات ایک کئے رکھا۔
 قائد کی بصیرت ہی تھی کہ انہوں نے کہا پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر ہو گی یعنی بر صغیر میں صرف ہندو نہیں بستے یہاں د وقومیں آباد ہیں مسلمان اور ہندو جن کا صدیوں سے ایک ساتھ رہنے کے باوجود رہن سہن‘ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، رسم و رواج سب کچھ ایک دوسرے سے الگ ہے۔آج جب بھارت میں ہم مسلمانوں پر ظلم ہوتا دیکھتے ہیں تو قائد کی بصیرت کے معترف ہو جاتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان نہ ہوتا تو بر صغیر کے مسلمانوں کا آج کیا حال ہوتا۔ آج ہم پاکستان میں نماز پڑھ سکتے ہیں، مسجد بنا سکتے ہیں، سکول بنا سکتے ہیں، اپنا آئین ہے، مکمل آزادی ہے تو یہ سب کچھ صرف قائد کی بدولت ہے وگرنہ آج ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں مسلمان نماز پڑھنے سے عاجز ہیں۔وہاں آئے روز ہندو انتہا پسند کبھی انہیں لباس کی وجہ سے نشانہ بناتے ہیں تو کبھی ان کے ناموں کی وجہ سے تشدد کا شکار کرتے ہیں۔ 
آج بھارت کا مسلمان گائے کا گوشت نہیں کھا سکتا گوشت کھانا تو دور مسلمانوں کو گائے کا گوشت بیچنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ اور تو اور اب تو وہاں رنگ کو بھی ہندو اور مسلم میں تقسیم کیا جا رہا ہے ہرے رنگ کو مسلمانوں کا رنگ اور زعفرانی رنگ کو ہندوؤں کا رنگ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس پر بھی مسلمانوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے یا ان سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے تھے۔انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کی ابتدا ہی ہندو مسلمانوں کے مشترکہ پلیٹ فارم سے کی اور یہ قائداعظم محمد علی جناح ہی تھے جن کی کوششوں کی بدولت 31دسمبر 1915 میں مسلم لیگ اور کانگرس کا اجلاس ممبئی کے ایک ہی میدان میں منعقد ہوا۔لیکن جب ہندوؤں نے اپنی عددی برتری کی بنا پر مسلمانوں کو کمتر سمجھنا شروع کر دیا اور میثاق لکھنؤ میں طے کردہ نکات پر بھی اتفاق نہ کیا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ اگر ہندوستان کو آزادی ملی تو مسلمانوں کا جینا ہندو اکثریت دوبھر کر دے گی تو اس کے بعد انہوں نے الگ ملک کیلئے سوچنا شروع کر دیا۔
1928 میں نہرو رپورٹ نے ان کی ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں میں آخری کیل ٹھونک دی اور اس کے بعد قائد نے مسلمانوں کے الگ وطن کیلئے جدوجہد شروع کی اور مختصر ترین عرصے میں پاکستان کی بنیاد رکھی جو آج عالم اسلام کا ایک نمایاں اور واحد ایٹمی قوت کا حامل ملک ہے۔ افسوس کہ قائد کی رحلت کے بعد ہمیں ستر سالوں میں ان جیسا رہنما میسر نہ آیا۔قائداعظم کے بعد وزیراعظم اور صدور تو بہت آئے لیکن قائد جیسا کوئی رہنما نہ آیا۔

ای پیپر-دی نیشن