’’روشن جبِیں ۔بابا جعفری ؒکی یادیں!‘‘
عاشق ِرسولؐ ، شاعرِ مشرق اور مصّورِ پاکستان علاّمہ محمد اقبالؒ نے اپنے انداز میں مرنے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ …
’’مرنے والوں کی جبِیںرَوشن ہے ، اِس ظلمات میں !
جس طرح تارے چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں !‘‘
…O…
معزز قارئین ! کل کے ’’ نوائے وقت ‘‘ میں آپ ’’ بابائے قوم ‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عظمت اور آپؒ کی 147 ویں سالگرہ کے بارے مضامین پڑھیں گے ۔ آج مَیں24 دسمبر کو علاّمہ محمد اقبال ؒ کے قریبی دوست اور حضرت قائداعظم ؒ کے ’’روشن جبِیں ‘‘ ساتھی ماہر تعلیمات سیّد محمد علی جعفری ؒ ؒالمعروف ’’ بابا جعفری ؒ‘‘ کی 156 ویں سالگرہ کے بارے ،عرض کر رہا ہُوں ۔مرحوم کے بے شمار دوست اور عزیز و اقارب ہر سال اُنہیں بھی یاد کرتے ہیں ۔
بابا جعفری ؒ25دسمبر 1866ء کو ، بھارت کے صوبہ راجستھان ؔکی ریاست ’’بھرت پُور ‘‘ کے قصبہ ’’پہر سر ‘‘میں پیدا ہُوئے اور 16 اپریل 1973ء کو لاہور میں اُن کا وِصال ہُوا۔ تحریک پاکستان کے مؤرخین نے علاّمہ اقبالؒ اور بابا جعفریؒ کے تعلقات اور ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے بارے میں ایک دوسرے سے مشاورت کا بھی تذکرہ کِیا ہے ۔
بابا جعفریؒ کے بزرگان کا تعلق تعلیم و تدریس سے رہا۔ اُن کے نانا میر سیّد ضامن علیؒ 1857ء میں آگرہ کالج میں عربی فارسی کے مُدرس تھے ۔ جعفری صاحب ؒنے الہٰ آباد یونیورسٹی انڈیا سے تاریخ، پولیٹیکل اکانومی اور انگریزی میں ایم اے کِیا۔ الہٰ آباد یونیورسٹی انڈیا کا یہ پہلا گریجویٹ / پوسٹ گریجوایٹ گروپ تھا۔ اُن میں معروف شخصیت سر تیج بہادر سپرد سمیت کئی دوسرے نامور زُعما تھے ۔ ایم اے کے بعد جعفری صاحب ؒریاست بھرت پور گورنمنٹ کالج ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہُوئے لیکن مہاراجہ بھرت پور سے ناچاقی کے باعث اُن کا وہاں رہنا ممکن ن رہا اور وہ نوکری کو خیر آباد کہہ کر آگرہ شہر آگئے جہاں کافی تعداد میں اُن کے عزیز و اقارب تھے ۔
1903ء سے 1906ء تک ’’قائدین و کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ کے گڑھ ’’ اِسلامیہ کالج (ریلوے روڈ ) لاہور‘‘ میں بحیثیت پرنسپل اُن کا کردار بہت اہم رہا ۔ 1906ء میں ’’امیرآف افغانستان ‘‘ حبیب اللہ خان لاہور تشریف لائے تو اُنہوں نے ’’اسلامیہ کالج ‘‘ میں ’’ حبیبیہ ہال ‘‘ کا سنگ ِ بنیاد رکھا تھا ۔
دسمبر 1909ء میں بابا جعفریؒ نے ’’ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ رنگون (برما) میں ’’اسلامیانِ متحدہ پنجاب ‘‘ کی نمائندگی کی۔ تحریک پاکستان کے ایک راہنما ( قائداعظمؒ کے قریبی ساتھی ) ملک برکت علی کے سوانح نگار ۔ایم رفیق افضل لکھتے ہیں کہ ’’ ملک برکت علی ہمیشہ ہی بابا جعفریؒ سے راہنمائی حاصل کیا کرتے تھے! ‘‘۔ 1921ء میں ایمپریس روڈ لاہور پر نواب محمد علی قزلباش کی قیام گاہ پر ایران کے نامور عالم دین علاّمہ عبدالکریم نجفی زنجانی سے علاّمہ اقبالؒ اور بابا جعفریؒ کی مشترکہ ملاقاتوں کا اُمت ِ مسلمہ میں بہت چرچا رہا ۔
خاکسار تحریک کے بانی علاّمہ عنایت اللہ خان المشرؔقی ،ممتاز ادیب ، شاعر و دانشور خواجہ دِلؔ محمد سمیت کئی دیگر اکابرین کو اسلامیہ کالج لاہور میں بابا جعفریؒ کے شاگرد ہونے پر فخر حاصل رہا ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے نامور راہنما چودھری خلیق اُلزمان نے اپنی کتاب
’’ Pathway to Pakistan"‘‘
میںبابا جعفری ؒکی قومی خدمات کا خصوصاً ذکر کِیا ہے ۔ 1953ء میں تحریک ِ ختم نبوت زور پکڑ گئی تو، مارشل لاء کے تحت مولانا مودودی ؒاور مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ کو سزائے موت دِی گئی ۔ بابا جعفریؒ نے مولانا عبداُلستار خان نیازی کی قانونی پیروی اور معاونت میں اہم کردار ادا کِیا، پھر حکومت کو دونوں قائدین کی سزائے موت منسوخ کرنا پڑی۔
’’ ڈائریکٹر تعلقات ِ عامہ متحدہ پنجاب ‘‘ میر نور احمد نے اپنی تالیف ’’ مارشل لاء سے مارشل لاء تک ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’سکندر جناح پیکٹ‘‘ ۔ بابا جعفریؒ ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا ‘‘ ۔
مولانا مودودی ، پیر جماعت علی شاہ، مولانا عبدالستار خان نیازی ، مولانا ظفر علی خان ، سردار سکندر حیات ، خضر حیات ٹوانہ ،نواب مظفر علی خان قزلباش، میاں ممتاز احمد خان دولتانہ ، گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان ،مولانا غلام رسول مہر،علامہ علاؤالدین صدیقی، مولوی ابراہیم علی چشتی، مولانا چراغ حسن حسرتؔ ،آغا شورش کاشمیری اور م ش(محمد شفیع)جیسی اہم شخصیات بابا جعفریؒ کے حلقہ ٔ احباب میں شامل تھیں۔ مؤرخین نے لاہور میںعظیم تربیتی ادارے ’’ انجمن حمایت ِاسلام‘‘ کے لئے بھی بابا جعفری ؒکے اہم کردار کا تذکرہ کِیا ہے۔
بابا جعفریؒ کے نواسے چیئرمین ’’ محمد علی جعفریؒ ایجوکیشنل سوسائٹی ‘‘۔سیّد محمد یوسف جعفری سے میری 1966ء سے دوستی ہے ۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ ’’ ہمارے بزرگان ،سلطان شہاب اُلدّین محمد غوری کے دَور میں اپنے مُورث اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندر ؒکے ہمراہ ہندوستان آئے اور راجستھان کے شہر ’’ بیانہ‘ ‘ میں سکونت اختیار کی تھی‘‘ تو ، مَیں نے بھی اُنہیں بتایا کہ ’’میرے آبائو اجداد کا تعلق بھی اجمیر ؔشریف سے تھا اور اُنہوں نے ’’خواجہ غریب نواز ،نائب رسول ؐ فی الہند، خواجہ مُعین اُلدّین چشتی ؒکے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا ‘‘۔ پھر ہماری قُربت بڑھتی گئی۔
بابا جعفریؒ کے وصال ( 16 اپریل 1973ء ) سے ڈیڑھ سال پہلے سیّد محمد یوسف جعفری مجھے اُن سے ،ملاقات کے لئے اپنے ساتھ گھر لے گئے ۔سفید ریش اور نُورانی چہرے والے بابا جعفریؒ نے ، ایک دلفریب مسکراہٹ سے میرا استقبال کِیا۔ وہ بڑے دھیمے اور مؤثر انداز میں مجھے اپنے بزرگوں کی داستان سُنا رہے تھے اور مَیں سوچ رہا تھا کہ ’’ کیا کبھی میرے بزرگوں کی بابا جعفری ؒ کے مُورث اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندرؒ سے ملاقات ہُوئی ہوگی؟‘‘بابا جعفریؒ کے چاروں بیٹوں سیّد حسن جعفری ،ایڈووکیٹ، میجر سیّد موسیٰ جعفری ،نامور شاعر اور سفارتکار سیّد محمد جعفری اور بیورو کریٹ سیّد جعفر جعفری اور دو بیٹیوں سکینہ جعفری اور فاطمہ جعفری کی اولاد نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح بہت نام پیدا کِیا ہے۔
معزز قارئین! 9 اپریل 2019ء کو لاہور میں سیّد محمد یوسف جعفری کے چھوٹے بھائی کرنل (ر) سیّد محمد ایوب جعفری کے بیٹے سیّد محمد مصطفی جعفری کی دعوتِ ولیمہ میں بابا جعفریؒ کی آل اولاد میں سے کئی "Serving" اور "Retired" جج صاحبان ، سینئر وُکلاء ، ڈاکٹرز ، پروفیسرز (خواتین و حضرات ) سے میری ملاقات ہُوئی ، اُن میں سیّد محمد یوسف جعفری کے بہنوئی پروفیسر سیّد علیم حیدر زیدی کے دونوں بیٹوں ، میجر نیئر عباس زیدی اور بریگیڈئیر احسن رضا زیدی سے جب مَیں مِلا تو مَیں نے تصّور میں بابا جعفریؒ سے مخاطب ہو کر علاّمہ اقبالؒ کا یہ مصرعہ پڑھا کہ …
رہبرِ ہے ، قافلوں کی ، تاب ِ جبِیںؔ تمہاری!
٭…٭…٭