پنجاب کا سیاسی اور آئینی قضیہ
اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت‘ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کے مابین گزشتہ ایک ہفتے سے جاری آنکھ مچولی کے کھیل کا ڈراپ سین 22 دسمبر کی شب گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو انکے منصب پر ڈی نوٹیفائی کرنے سے ہوا۔ چودھری پرویزالٰہی نے گورنر پنجاب کے ایماءپر چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کو مسترد کر دیا اور دادرسی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا جس کی سماعت کیلئے چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ایک وسیع تر بنچ تشکیل دیا تاہم بنچ کے ایک فاضل رکن نے ذاتی وجوہات کے باعث بنچ کا حصہ بننے سے معذرت کی چنانچہ چیف جسٹس کی جانب سے نیا بنچ تشکیل دیا گیا جس کے روبرو چودھری پرویزالٰہی کی دائر کردہ آئینی درخواست کی سماعت ہوئی۔ اس کیس میں عدالت عالیہ آئین و قانون اور اس نوعیت کے کیسز میں اعلیٰ عدلیہ کے سابق فیصلوں کو مدنظر رکھ کر ہی کسی حتمی نتیجے تک پہنچے گی جس کیلئے فریقین کے وکلاءاپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں اور عدالت کی جانب سے چودھری پرویزالٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے یہ استفسار بھی کیا گیا کہ انکے مو¿کل وزیراعلیٰ کے منصب پر بحالی کی صورت میں اسمبلی تحلیل تو نہیں کردینگے۔فاضل عدالت نے اس معاملہ پر چودھری پرویزالٰہی سے مشاورت کیلئے دس منٹ کی مہلت دی جس کے بعد بیرسٹر علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ فاضل عدالت وزیراعلیٰ کو اسمبلی نہ توڑنے کا خود پابند کر دے جس پر فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت وزیراعلیٰ کے آئینی اختیار پر کیسے پابندی عائد کر سکتی ہے۔ اس سیاسی‘ آئینی اور قانونی جنگ کے باعث صوبے میں سیاسی انتشار اور آئینی بحران جس انتہاءتک جا پہنچا ہے اسکی حدت میں عدالتِ عالیہ کے فیصلے سے بھی کمی واقع ہوتی نظر نہیں آرہی۔ عدالتِ عالیہ کے احکام کی بنیاد پر چودھری پرویزالٰہی اپنے منصب پر بحال ہوتے ہیں تو انہیں اپوزیشن کی جانب سے دوبارہ عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑیگا یا انہیں عمران خان سے کئے گئے وعدے کے مطابق فی الفور اسمبلی توڑنے کی سمری گورنر کو بھجوانا ہوگی۔ اسی طرح اگر چودھری پرویزالٰہی کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر ڈی نوٹیفائی کرنے سے متعلق گورنر کا جاری کردہ نوٹیفکیشن برقرار رہتا ہے تو گورنر پنجاب اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا پراسس شروع کرائیں گے جس میں کوئی امیدوار مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کر پایا تو پھر گورنر کے پاس اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا آپشن موجود ہوگا۔ چونکہ وفاقی حکومت اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے دینا چاہتی ہے اس لئے اسکی کوشش ہوگی کہ معاملات کو اسمبلی کی تحلیل کی طرف نہ جانے دیا جائے۔ اس طرح صوبے میں سیاسی غیریقینی کی فضا چھٹنے کے بجائے مزید گہری ہو سکتی ہے جو قومی سیاست پر بھی منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ ایک دوسرے کی مخالف سیاسی قیادتوں نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جن کی باہمی چپقلش سسٹم کے استحکام و بقاءپر پھر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سیاسی قیادتیں معاملہ فہمی سے کام لے کر سسٹم کو مضبوط بنائیں چہ جائیکہ سسٹم کے ڈی ریل ہونے کا دھبہ پھر انکے دامن پر لگے۔