کابل: یونیورسٹیوں پر پابندی کیخلاف احتجاج کرنے والی خواتین اور صحافی گرفتار
کابل (آئی این پی) افغانستان کی طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی یونیورسٹیوں پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے پر طالبان انتظامیہ نے کئی خواتین کو گرفتار کر لیا۔ کابل میں احتجاج کرنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ 3صحافیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ اعلان کے اگلے ہی روز سینکڑوں خواتین نے فیصلہ کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ خواتین نے پابندی کے باوجود یونیورسٹیوں میں داخل ہونے کی بھی کوشش کی۔ تاہم یونیورسٹیوں پر تعینات گارڈز نے خواتین کو یونیورسٹیوں میں داخلے سے روک دیا تھا۔ افغانستان میں خواتین کی اعلی تعلیم پر پابندی کے معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ طالبان افغان خواتین کو تاریک مستقبل کی سزا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خواتین کے اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے پر عائد پابندی واپس لینے تک طالبان باقی دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں ناکام رہیں گے، طالبان نے پابندی واپس نہ لی تو اس کی قیمت چکانی ہوگی۔ دوسری طرف دنیا کے سات بڑے صنعتی ملکوں جی سیون کے وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ طالبان کا سلوک انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہوسکتا ہے۔ انہوں نے افغانستان میں یونیورسٹی میں خواتین کے داخلے پر عائد پابندی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دنیاکے سات امیر ممالک کے کلب کے وزرا نے ورچوئل مذاکرات کے بعد ایک بیان میں کہا کہ خواتین کو عوامی زندگی سے بے دخل کرنے کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کے نتائج ہمارے ممالک کے طالبان کے ساتھ تعلقات پر مرتب ہوں گے۔ افغانستان کے حکمران طالبان نے گذشتہ سال اقتدار میں واپسی کے بعد نرم حکمرانی کا وعدہ کیا تھا۔ جی سیون کے صدر ملک جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے افغانستان میں خواتین کی یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی کو پتھر کے دورکی جانب' ایک اور قدم قرار دیا ہے۔ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو اب نہ صرف یونیورسٹیوں میں داخلے کی اجازت نہیں بلکہ انہیں پارکوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے، انہیں کھلے ہوئے دروازے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔
گروپ 7