پیر ،2جمادی الثانی 1444ھ،26 دسمبر2022ء
وزیر خارجہ بلاول نے ٹک ٹاک پر اکاﺅنٹ بنا لیا۔ ہزار فالور مل گئے
یہ جدید دور ہے۔ سیاستدان ہوں یا فلمی اداکار کھلاڑی ہوں یا اناڑی سب جدید ٹیکنالوجی سے آگہی رکھتے ہیں خاص طور پر ٹک ٹاک، ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک ، یوٹیوب ۔ تو ان سب میں نہایت مقبول ہیں۔ پڑھے لکھوں کی بات چھوڑیں عام آدمی خواہ خواندہ ہو یا ناخواندہ وہ بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ٹک ٹاک کے معاملے میں البتہ وہی بھارتی فلم پٹھان کی حالت سامنے آتی رہتی ہے۔ حمایت اور مخالفت کا شور اٹھتا رہتا ہے۔ پٹھان کے گانے بے شرم رنگ کی طرح ٹک ٹاک پر بھی بہت سی ایسی ویڈیوز سامنے آتی ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگ قتل ہوتے ہیں کئی بدنام اور کئی ٹک ٹاک بناتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اب وزیر خارجہ بلاول نے بھی ٹک ٹاک فیم میں شامل ہو کر دھوم مچا دی ہے۔ ان کو دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں فالورز مل گئے ہیں۔ اب تو انسٹا گرام، یوٹیوب والے بھی ان سے التجا کرتے نظر آئیں گے کہ ”کبھی ہمارے پاس بھی آﺅ ناں خوشبو لگا کے“ ٹویٹر اور فیس بک پر تو بلاول صاحب پہلے سے موجود ہیں۔ اب دیکھتے ہیں اس فنی ٹک ٹاک پر وہ کیا کمالات دکھاتے ہیں۔ ویسے تو وہ ہمارے سیاسی میدان میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ اپوزیشن والی عمران خان اینڈ کمپنی تو ان کے خلاف ہر وقت گولے داغتی رہتی ہے۔ اب دیکھنا ہے ان کے مزاحیہ بیانات کے جواب میں بلاول جی کیا لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ بس ایک مشورہ دینا ہے کہ وہ شیخ رشید جیسے چلتے پھرتے ٹک ٹاکروں سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے کیونکہ ان کا مقابلہ قدرے مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے بلاول کو کافی محنت سے وہ زبان سیکھنا ہو گی جو پنڈی والے شیخ کی ہے۔ وہ ناممکن ہے۔
٭٭٭٭
بھارت جوڑو یاترا دہلی پہنچنے پر راہول گاندھی کی خواجہ نظام الدین کے مزار پر حاضری
جب تک نریندر مودی کی بھارت پر حکمرانی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت بھارت کو جوڑے رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ شاید قدرت نے مودی کو بھارت کے تخت پر بٹھایا ہی اس لیے ہے کہ روس کی طرح بھارت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوں۔ مودی قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ یہ کام نہایت احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت بھارت میں مذہبی انتشار اور اختلافات کی سیاست عروج پر ہے۔ بی جے پی کی ہندو توا پالیسی اب مسلم کش پالیسی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بی جے پی اور اس کی ہمنوا انتہا پسند ہندو تنظیمیں ہندوستان میں کسی مسلمان کو رہنے کا جینے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا وہ سارے مسلمانوں کو اٹھا کر بحیرہ ہند میں غرقاب کر دیں۔ یہ سب مسلمان وہ ہیں جو بھارت کے باسی ہیں۔ یہاں کے باشندے ہیں ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور یہ ہندو انتہا پسند جنونیوں سے برداشت نہیں ہو رہے۔ اب کانگریس والے اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے لیے ”بھارت جوڑو“ یاترا (لانگ مارچ) کر رہے ہیں جو 108 دن بعد دہلی پہنچی تو کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے دہلی جسے بائیس خواجاﺅں کی چوکھٹ کہتے ہیں پہنچنے پر یہاں خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ پر حاضری دی پھولوں کی چادر چڑھائی اس سے صاف مطلب ظاہر ہے کہ وہ پہلے کی طرح مسلمانوں کا ووٹ بنک حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جسے اندرا گاندھی کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے کانگریس کو ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ اب دیکھنا ہے کانگریس کا یہ بھارت جوڑ و مارچ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ مودی تو مہان بھارت کے نام پر پورے بھارت کا بلیدان دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
فاسٹ باﺅلر حارث رﺅف کا اپنی ہم جماعت مزنا سعود سے نکاح
کرکٹ کی دنیا ویسے بھی اب فلمی دنیا کی طرح چکا چوند ہو چکی ہے۔ گلیمر کے ساتھ پیسوں کی بہتات ہو تو لٹانے کا خود بخود دل چاہتا ہے۔ فلمی ستاروں کی طرح آج کل کھلاڑی ستاروں کا بھی دور دورہ ہے۔اس کام میں میڈیا بھی اپنے کھیل کی دنیا کے ستاروں کا بھرپور ساتھ دیتا نظر آتا ہے۔ کسی دور میں فلمی ستاروں کی شادیاں اور علیحدگیاں گرما گرم موضوع بحث ہوتی تھیں پھر نہ فلمیں رہیں نہ فلمی ستارے اب تو فلمی صنعت میں دھول اڑ رہی ہے۔ اس گرد و غبار میں کبھی کبھی کوئی فلم یا فلمی ستارہ چمکتا دکھائی دیتا ہے مگر کھیلوں کی دنیا میں بہاریں قائم ہیں۔ فیشن، میک اپ اور کیمرے کے کمالات نے ان کھلاڑیوں کو چمکتا دھمکتا ستارہ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر کچھ کھلاڑی ویسے ہی عوام کا یعنی اپنا فینز کا دل موہ لیتے ہیں۔ ان میں سے ایک حارث رﺅف بھی ہیں۔ ان کے چاہنے والے بے شمار ہیں۔ جبھی تو ان کے نکاح کی تقریب میںبیشتر کھلاڑی بھی شریک تھے۔ شاہین آفریدی اور کئی دیگر دوستوں نے دولہا کی رعایت میں لباس بھی ویسا ہی پہنا تھا۔ حارث رﺅف کی مہدی اور نکاح کی وائرل ویڈیوز کو بھی بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ دلہن نے تو اپنے ہاتھ پر لگی مہندی میں حارث رﺅف کے نام کے ساتھ ان کی باﺅلنگ سپیڈ 150 بھی درج کی ہے جو دولہا سے ان کی محبت کا والہانہ انداز ہے۔ دونوں کلاس فیلو رہ چکے ہیں۔ گویا پہلے سے ہی ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے۔ اب ان کی محبت زندگی کی ایک نئی شروعات کر رہی ہے۔ دعا ہے دونوں یونہی محبت کے رشتے میں بندھے ہنستے مسکراتے رہیں۔
٭٭٭٭٭
چین میں پھیلا کرونا پاکستان کیلئے خطرہ نہیں۔ قومی ادارہ صحت
خدا کرے ادارہ صحت کی یہ رپورٹ درست نکلے اور چین میں پھیلی کرونا کی نئی لہر سے پاکستان محفوظ رہے۔ مگر عوام کے خدشات بھی اپنی جگہ درست ہیں۔ اس وقت چین میں ہزاروں پاکستانی کام کاج ملازمت تجارت کے سلسلے میں موجود ہیں اس کے علاوہ یہی صورتحال پاکستان میں موجود چینیوں کی بھی ہے۔ یہ لوگ دونوں ممالک میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اب چین میں جس تیزی سے کرونا پھیل رہا ہے۔ اس سے تو ہر وقت یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ نامراد کرونا ٹہلتے ٹہلتے ہماری طرف نہ آ نکلے۔ بھائی چینیوں کا کیا وہ تو سخت حکومتی اقدامات اور بہتر طریقہ علاج و احتیاط کرتے ہیں۔ وہاں صرف اعلانات نہیں ہوتے ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔ ہم ٹھہرے ازلی لاپرواہ لوگ ہم نہ ڈرتے ہیں نہ احتیاط کرتے ہیں۔ سب کچھ اوپر والے پر چھوڑ کر خود کو بری الذمہ سمجھنے لگتے ہیں۔ یوں ہماری یہی بے احتیاطی ہمارے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔ اوپر سے ہمارے ہاں مناسب علاج اور حکومتی حفاظتی اقدامات بھی ایسے نہیں ہوتے کہ ہم ان پر تکیہ کر کے بیٹھ جائیں۔ اس لیے ہماری حالت زیادہ پتلی ہونے کے امکانات سو فیصد زیادہ ہیں کیونکہ نہ مناسب طبی عملہ دستیاب ہے نہ ادویات اور نہ لوگ ویکسینیشن میں دلچسپی لیتے ہیں۔ شاید مفت کی دوا انہیں راس نہیں آتی۔ اس لیے حکومت چین سے آنے والوں پر کڑی نظر رکھے۔ اس مصیبت کو ز یادہ ایزی نہ لے۔ اس سے جان بچانے کی فکر کرے۔ بحری، بری اور ہوائی راستوں سے آنے والے چینی باشندوں کا میڈیکل چیک اپ کرے انہیں شہروں میں آنے کی اجازت دیں۔ بیماری کی صورت میں قرنطینہ میں رکھ کر صحت یاب ہونے کے بعد جانے دیں۔ ورنہ پچھلا تجربہ گواہ ہے کہ کرونا نے کس طرح عوام اور معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا تھا۔ اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭