سیاسی قیادت کی رسہ کشی ملکی مفاد میں ہرگز نہیں
سیاسی قیادت نے جس طرح آپس میں رسہ کشی شروع کررکھی ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک اور عوام کے مسائل سے انھیں کوئی سروکار نہیں، وہ بس اپنے حصے کی باری لینا چاہتے ہیں۔ یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ سیاسی رسہ کشی ملکی مفاد میں ہرگز نہیں ہے لیکن اس کے باوجود کوئی بھی سیاسی قائد یا رہنما یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں کہ اسے افہام و تفہیم کے ساتھ کام لینا چاہیے۔ پنجاب ان دنوں خصوصی طور پر سیاسی رہنماو¿ں کی دھینگا مشتی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں یہ سال مسلسل سیاسی عدم استحکام ہی کا رہا اور تین وزرائے اعلیٰ یکے بعد دیگرے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کا منصب سنبھال چکے ہیں لیکن اس کے باوجود مسائل جوں کے توں ہیں۔ حالات یہی بتارہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بھی سیاسی سرکس یونہی چلتا رہے گا اور صوبے کے عوام کی پریشانیوں اور مسائل میں کمی کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے ماڈل ٹاو¿ن لاہور میں واقع پارٹی سیکرٹریٹ میں اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکمران اتحاد کے وفاقی وزراءنے پنجاب کی صورتحال پر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار اور اسے چیلنج کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کے معاملے پر عدالتی فیصلے پر نظرثانی یا سو موٹو ایکشن لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں پاکستان آگے نہ بڑھے اوربار بار جمہوری نظام پر حملے کرتے ہیں، اعتماد کا ووٹ لیں اور پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں۔ آج یہ اپنے لوگوں کو دو، دو ارب روپے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے، یہ جس اسمبلی کو تحلیل کریں گے وہاں پر انتخابات کرا دیں گے۔ اس موقع پر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہائیکورٹ کے فیصلے میں خامیاں ہیں۔ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا، چاہے آج لیں یا کچھ دن بعد لیں، اگر اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ موجودہ پنجاب حکومت کو ایوان کی اکثریت حاصل نہیں، پنجاب حکومت کو سٹے آرڈر کے پیچھے چھپنے نہیں دیں گے۔
ادھر، وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرصدارت نون لیگ کے سینئر رہنماﺅں کا اجلاس ہواجس میں انھیں بریفنگ دی گئی کہ آئندہ ماہ پنجاب سے تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اجلاس میں چودھری پرویز الٰہی کی لاہور ہائیکورٹ سے بطور وزیراعلیٰ بحالی اور اس کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اس دوران وزیراعظم کو بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس اعتماد کے ووٹ پورے نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کے اجلاس میں ملک بھر کی مجموعی صورتحال خصوصاً پنجاب کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ¿ خیال کیا گیا اور وزیراعلیٰ پنجاب کو گورنر کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے آئینی حکم نامے پر بھی غور کیا گیا۔ وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ خواہ اس معاملے کو جتنا بھی تاخیر کا شکار کر لیں، انھیں ہرصورت اعتماد کا ووٹ لینا ہی ہو گا۔
دوسری جانب، سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ میری پیش گوئی ہے عام انتخابات مارچ یا اپریل 2023ءمیں ہوں گے۔ آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم (پاکستان جمہوری تحریک) کے پاس ارکان کی منڈی لگانے اور گندی سیاست کے علاوہ کچھ نہیں۔ سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پرویزالٰہی گروپ ہمارے ساتھ بہتر چل رہا ہے، مجھے ابھی تک ان پر اعتماد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوموار کو قومی اسمبلی اراکین استعفوں کی تصدیق کے لیے جائیں گے۔ حکومت میں آنے کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ عمران خان نے ایک بار پھر سابق آرمی چیف پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ آخری ایک سال میں پتا چلا جنرل قمر جاوید باجوہ احتساب چاہتے ہی نہیں۔ جنرل باجوہ سمجھتے رہے پی ٹی آئی کا عروج کم ہو گا لیکن ہوا نہیں۔
اسی حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ اعتماد کا ووٹ 11 جنوری سے بہت پہلے لے لیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں 188 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے 177 ارکان پرویز الٰہی کی حمایت کر رہے ہیں۔ اعتماد کے ووٹ میں تاخیر نہیں کرنا چاہتے۔ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلی تحلیل کی طرف جائیں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے رہنما مونس الٰہی نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی تصفیہ کروا سکتی ہے تاہم ابھی تک کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ اعتماد کا ووٹ کب لیں گے، یہ فیصلہ عمران خان کریں گے۔ اسمبلیاں توڑنے پر ہم نے اپنی رائے دیدی ہے، عمران خان نے فیصلہ سنا دیا، اس پر عمل ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بندے توڑنے کے لیے منڈی نون لیگ نے لگانی ہے، ہم اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے تیار ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ہمارے نمبرز پورے ہیں۔
ان تمام بیانات اور تقریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کو صرف اور صرف اپنی طاقت دکھانے کا شوق ہے جسے پورا کرنے کے لیے ملک اور عوام کے مفادات اور مسائل کو پس پشت ڈالا جارہا ہے۔ یہ صورتحال قابلِ افسوس بھی ہے اور لائقِ مذمت بھی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس وقت ملک کو سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے نظریاتی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی راستہ نکالے لیکن کوئی بھی سیاسی رہنما اس جانب توجہ نہیں دے رہا۔ اس وقت ملک کو جن اقتصادی مسائل کا سامنا ہے وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی رہنما اپنی لڑائی کو مو¿خر کر کے اکٹھے ہو کر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔