• news

پرویز الٰہی ،عمران خان اور قائد اعظم


جمعہ کو دو خوشیاں ایک ساتھ ملیں۔پہلی یہ کہ پنجاب سرکار بحال کردی گئی ہے اور دوسری ایک مقررہ وقت تک وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اسمبلی نہیں توڑ سکیں گے۔عدالت کو ساتھ یہ بھی حکم دے دینا چاہیے تھا کہ اب چونکہ اگلا سال نئے انتخابات کا ہے اس لیے کوئی بھی جماعت اسمبلیوں کے ساتھ کھلواڑ نہ کرے۔ سابق وزیر اعظم نے جمعہ کو پنجاب اور کے پی کے اسمبلی توڑنے کا اعلان کررکھا تھا۔پنجاب اسمبلی کو عدالت کے حکم پر بچا لیا گیا لیکن حیرت اس بات پہ ہورہی ہے کہ ہمارے سابق وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب  کے پی کے اسمبلی توڑنے کا اعلان کیوں نہ کرواسکے۔کیا اسمبلی اسمبلی کھیلنے ، سڑکیں بند کرنے اور کاروباری طبقے کو پریشان کرنے کے لیے پنجاب ہی نظر آتا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ عدم اعتماد کے بعد جناب خان قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیتے۔ بلکہ ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے میں موجود رہ کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے۔لیکن لگتا ہے خان صاحب کی نظر میں صرف ان کا وزیر اعظم کی سیٹ پر موجود ہونا ہی جمہوریت ہے ۔وہ صرف خود کو ہی نیک پاک اور محب وطن سمجھتے ہیں باقی سب ان کی نظر میں کرپٹ،بدعنوان اور چور لٹیرے ہیں۔ 
خان صاحب کے پاس بیٹھے لوگ انہیں دلیل سے یہ نقطہ نہیں سمجھا رہے کہ اگلا سال الیکشن کا ہے۔ایسے میں جس قدر ممکن ہو عوام کی فلاح کے منصوبے شروع کیے جانے چاہیے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی صوبے کی لوگوں کے جذبات و احساسات پہ بھی ان کی نظر رہتی ہے۔ سیاست، دانوں، میڈیا، بیوروکریسی، دانشوروں، صحافیوں اور عسکری قیادت سے اچھی سلام دعا رکھتے ہیں۔ اس لیے سیاسی شعور کا تقاضہ ہے کہ پنجاب اسمبلی توڑنے کی بجائے چوہدری پرویز الٰہی کو ترقیاتی کاموں کا جال بچھانے کا ٹارگٹ دیا جائے۔او ر ساتھ کے پی کے میںایسا ہی کیا جائے۔اگر خان صاحب خود کو ایک مقبول راہنما سمجھتے ہیں تو اگلے انتخابات کی تیاری کریں ۔سندھ بلوچستان میں سے ایسے لوگوں کا چناو کریں جنہیں عوام میں پذیرائی ہو۔آج بابائے قوم حضرت قائد اعظم کی سالگرہ ہے اور آج مجھے یہ لکھنا پڑھ رہا ہے کہ میرے ملک کو آج تک ایک بھی ایسا سیاست دان نہیں ملا جو میز پہ بیٹھ کے دلیل کے ساتھ اپنی بات منوانے کا ہنر جانتا ہو۔قارئین! تقسیم برصغیر کے چند سال بعد لارڈ ماونٹ بیٹن بی بی سی کو انٹرویو میں کہتا ہے۔ کہ حکومتِ برطانیہ نے انہیں ہندوستان بھیجا ہی اس لیے تھا کہ کسی صورت بھی پاکستان کا قیام عمل میں نہ آنے دیا جائے۔ وہ کہتا ہے کہ میری راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی تھیں کہ کس طرح قائداعظم کو پاکستان کے حصول سے باز رکھ سکوں گا۔ طاقت اور سیاست ہر طرح کی تدبیریں اختیار کیں۔ مگر قائداعظم ایک چٹان کی طرح قیام پاکستان کے لیے ڈٹے رہے۔ ان کے پاس ہر سوال کا مکمل جوا ب ہوتا تھا۔ ان سے بات کرتے ہوئے صاف لگتا تھا کہ ان سے اپنی مرضی کی کوئی بھی بات منوانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ فخر الدین بھارتی صدر قائداعظم کو جنگِ آزادی کا بہادر سپاہی کہتا ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کا راہنما جسونت سنگھ کہتا ہے کہ قائد صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ سبھی ہندوستاینوں کے لیڈر تھے۔ امریکی مؤرخ اسٹینلے کہتا ہے بہت کم لوگ تاریخ کا دھارا بدل پاتے ہیں ان میں چند ہی دنیا کے نقشے میں تبدیلی لاتے ہیں۔ اور مشکل سے ہی کوئی لیڈر اپنی قوم کے لیے الگ وطن حاصل کر پاتا ہے۔ محمد علی جناح میں یہ تینوں خصوصیات تھیں اور انہوں نے اپنی سیاست سے یہ تینوں کام عملی طور پہ کر کے دکھا دئیے۔ پنڈت جواہر لعل کی بہن وجے پنڈت قائد اعظم کی سیاسی بصیرت پہ بات کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ اگر مسلمانوں کے پاس سو گاندھی, سو نہرو اور سو پٹیل ہوتے اور اس کے جواب میں کانگریس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح ہوتا، تو ہندوستان کسی صورت تقسیم نہ ہوتا۔ موہن داس کرم چند گاندھی کہتا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ محمد علی جناح کو نہ ڈرایا جاسکتا ہے نہ جھکایا جاسکتا ہے اور نہ وہ کسی قیمت پہ خریدے جاسکتے ہیں۔ برطانوی صحافی بیورلی نکلس قائداعظم سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کا گن کچھ اس طرح گاتے ہیں۔ ’میرے سامنے ایشیا کی عظیم ترین شخصیت بیٹھی ہے۔ یہ انسان اس وقت 67 سال کا ہو چکا ہے۔ دراز قد، چھریرا بدن،یک چشمی عینک، ایک سفید کالر گلے میں، وضعدار سلک سوٹ۔ ان کی باتوں سے میں محسوس کر رہا ہوں کہ وہ ہندستان کی سیاست کو جس طرف چاہے لے جائیں گے۔ ہندوستان کے مسلم ان کے ایک اشارے پہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ پوری ہندو لیڈر شپ کو قائد جیسا مقام حاصل نہیں ہے۔ مگر ہندووں کے پاس گاندھی کی جانشینی کے لیے نہرو ہے۔ راج گوپال اچاریہ ہے۔ پٹیل ہیں۔ اور دوسرے بہت سے قدر آور سیاسی راہنما موجود ہیں۔ مگر مسلمانوں کے پاس محمد علی جناح کے بعد سیاست کے داو پیچ کو سمجھنے والا دوسرا اور کوئی نہیں ہے۔پنڈت جواہر لعل نے حد کردی اور وہ قائد کی عظمتوں کا اعتراف یوں کیا۔ کہ ’اچھا کردار اور اچھی سیاست ہی وہ راز ہیں جن کی وجہ سے محمد علی جناح نے کامیابیاں حاصل کیں۔

ای پیپر-دی نیشن