• news
  • image

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!!!!!

یہ اپریل دو ہزار انیس کی بات ہے جب نعمان بٹ پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اس بورڈ میں نعمان بٹ کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی جس کے گورننگ بورڈ کے وہ رکن اور جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر یہاں تک پہنچے۔ پھر نعمان بٹ تاریخیں بھگتتے رہے لیکن احسان مانی اور وسیم خان کی انا کو تسکین نہیں پہنچ رہی تھی۔ ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ نعمان بٹ کو زندہ ہی نہ رہنے دیتے۔ یہ آواز بند کرنے کی انہوں نے ہر ممکن کوشش کی۔ ایک منتخب نمائندے کے خلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے پابندی لگائی، اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے تفتیشی اداروں کو استعمال بھی کیا گیا لیکن نعمان بٹ ڈٹے رہے، وہ جھکے نہیں، ڈرے نہیں، اپنے موقف پر قائم رہے، آمروں کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان پر یہ ظلم صرف اس لیے کیا گیا کہ ملک میں محکمہ جاتی اور علاقائی کرکٹ کی بندش کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ جن لوگوں نے ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی وہ شاید بھول چکے تھے کہ وقت بدلنے میں کہاں دیر لگتی ہے۔ چند سال پہلے تک عہدوں پر موجود افراد یہ سمجھتے رہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے ہیں، کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکتا، وہ جو چاہیں کرتے رہیں گے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ پہلے احسان مانی گئے پھر وسیم خان کو بھی جانا پڑا اور بعد میں رمیز راجہ بھی رکنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود گھر بھیج دیئے گئے۔ جنہیں یہ زعم تھا کہ وہ بہت اہم ہیں اور ان کے بغیر پاکستان کرکٹ نہیں چل سکتی آج وہ ٹیلی ویژن، اخبارات اور سوشل میڈیا دیکھ رہے ہوں گے۔ پشاور کا ریڈ فلیگ ختم ہونے کا اعلان کر دیا گیا ہے، کرکٹ کوئٹہ کے بگٹی سٹیڈیم جا رہی ہے۔ آج بورڈ حکام ہر برائی اور خرابی کا ذمہ دار احسان مانی اور رمیز راجہ کو قرار دے رہے ہیں۔ جواب طلبی ہو رہی ہے، فائلیں کھل رہی ہیں، صرف فائلیں ہی نہیں دیکھنے والوں کی آنکھیں بھی کھل رہی ہیں اور اعدادوشمار دیکھ کر دماغ بند ہوا جا رہا ہے۔ اس عرصے میں صرف پیسہ لٹایا گیا، کسی کی انا کو تسکین پہنچانے کیلئے ملکی کرکٹ کا مستقبل داؤ پر لگا دیا گیا، حقائق بتانے والوں کی زباں بندی کی ہر ممکن کوشش ہوتی رہی جو لوگ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے رہے آج وہ سر جھکائے، ماتھا پکڑے پریشان نظر آتے ہیں، دیر تک خلا میں گھورتے رہتے ہیں یا پھر دیر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں انہیں یقین ہو چکا ہے کہ جواب طلبی کا وقت آن پہنچا ہے، احتساب ہوتا ہے یا نہیں یہ تو الگ بات ہے لیکن ممکنہ طور پر چار سال کرکٹ بورڈ کا سرمایہ لٹانے والوں کو اپنی سیٹوں کے جانے کا یقین ہو چکا ہے۔ 
وہ نجم سیٹھی جس پر کیسز بنائے گئے، متنازع بنانے کی کوشش ہوتی رہی، وہ شکیل شیخ جسے بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، گراؤنڈ چھین لی گئی، دیوار سے لگانے کی ہر ممکن کوشش ہوتی رہی، وہ نعمان بٹ جس کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی آج وہ تمام اہم فیصلے کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور کرکٹ بورڈ کے وسائل کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنے والے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ نجم سیٹھی، شکیل شیخ اور نعمان بٹ کی واپسی نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ جب آپ اقتدار میں ہیں، اختیار آپ کے پاس ہے، فیصلوں کی ذمہ داری ہے تو آئین ، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں۔ ملک کے اداروں ، وسائل اور نوجوان نسل کے مستقبل سے نہ کھیلیں۔ چار سال تک لوگ چیختے رہے لیکن فیصلہ سازوں نے ایک نہ سنی۔ اب ممکن ہے سفارشیں کروا رہے ہوں گے کیا انہیں دو ہزار اٹھارہ، دو ہزار انیس، دو ہزار بیس، دو ہزار اکیس، دو ہزار بائیس میں یہ خیال کیوں نہ آیا کہ ملازمت ضروری ہے، ماہانہ تنخواہ ضروری ہے، معاشرے میں اچھا مقام ضروری ہے۔ کھلاڑیوں سے روزگار، کھیل کے مواقع اور منتظمین سے کھیل کے میدان چھیننے والوں کو آج اقتدار سے ممکنہ علیحدگی کیوں ستا رہی ہے۔ جب ظلم کیا ہے تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ اب ادھر اْدھر کیوں بھاگ رہے ہیں۔ 
چار برس شکیل شیخ نے ملک بھر کے کرکٹ آرگنائزرز کو متحد رکھتے ہوئے ڈیپارٹمنٹل اور ریجنل کرکٹ کی بحالی کے لیے کام کیا۔ کرکٹ بورڈ سے آمریت کے خاتمے کیلئے مشکلات برداشت کیں اب وہ نجم سیٹھی کی قیادت میں واپس آئے ہیں۔ بورڈ میں ہونے والی بدانتظامی کو دیکھا ہے، غلط فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، کرکٹ کے حالات بہت خراب ہیں بہتری کیلئے میرٹ کو اپنانا ہو گا۔ اقتدار کبھی ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتا یہ آتا جاتا رہتا ہے اب اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور دیرینہ مسائل حل کریں۔ پی ایس ایل کے آغاز، ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی جیسا کام کریں گے تو لوگ یاد رکھیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن