• news
  • image

عوام کے دلوں پر راج کرنے والی بینظیر بھٹو

بے نظیر۔۔
عترت جعفری
2007ء کا دسمبر اس ملک کے دامن پر ایک ایسا دھبہ چھوڑ کر رخصت ہوا ہے جس کی بدنمائی میں اب تک کوئی فرق نہیں آیا ہے ،اس سال کے دسمبر کی27تاریخ کو صدی کی سب سے بڑی خاتون راہنماء محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو عوام کے سامنے بھرے میدان  میں بے دردی سے شہید کر دیا گیا ، کہا جاتا ہے کہ وقت مرہم دیتا ہے مگر لیاقت باغ  راولپنڈی  میں رونماء  ہونے والا  ایسا سانحہ تھا  جس نے ہر گذرتے سال کے ساتھ دکھ کو بڑھایا ہے ،اور قومی لباس پر لگا یہ دھبہ نمایاں ہی ہوتا چلا گیا ،اس سانحہ نے سوالات کو بڑھایا،معاشرے کی بے حسی کو نمایاں کیا ،ایک ایسا ملک جس میں قیادت کا بحران ہمیشہ سے رہا ہے ،چھوٹے قد کے لوگ جن کو نہ ملکی سیاست کا ادراک تھا اور نہ بین الااقومی امور  ومسائل کا شعور،محض اپنی دولت ،بازی گری  اور دیگرناقابل بیان خصوصیات کے بل پر قائد بنا کر مسلط کئے جاتے رہے،مگر حقیقی لیڈورں کے ساتھ بہت قابل مذمت سلوک ہوتا رہا ۔آمریت کے بد ترین سیاہ دور میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا جسے آج تک عدالتی قتل ہی کہااور سنا جاتا رہا ہے۔ عجب خوں چکاں داستان ہے، ان کے دونوں بیٹے بھی غیر فطری موت کا شکار ہوئے اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی چیلنج دے کر ہزاروں کارکنوں کے سامنے پندرہ برس قبل آج کے دن شہید کر دیا گیا۔دہشت گردوں  کے مقاصد بڑے واضح ہیں ،عوام کے دلوں پر راج کرنے والے راہنماء اور حقیقی قیادت ہی کو ختم کر دیا جائے تاکہ دنیا کے اس اہم ترین خطے میں واقع ملک اور اس کے عوام کو خود اپنے  فیصلے کرنے کا موقع نہ مل سکے۔۔۔۔۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی تمام زندگی جدوجہد اور آئین کی سربلندی کے لئے وقف رہی ،آج کے دور کا پاکستانی یہ نہیں جانتا ہے  کہ ملک ستر کی دہائی میں کن پریشان کن حالات سے دوچار تھا،1971ء  میں ملک کے دولخت ہوجانے کے بعد اس نئے پاکستان کو بچانے کا مرحلہ درپیش تھا جس میں اس وقت کے وزیر آعظم اور پی پی پی کے بانی چئیر مین ذوالفقار علی بھٹوکردار ادا کر رہے تھے اور یہ  تسلیم کیا جانا چاہئے کہ اس وقت پی پی پی واحد ایسی جماعت تھی جو ملک گیر تھی اور اس کی جڑیں چاروں صوبوں میں موجود تھیں ۔اس ایک جوہر اور قائد عوام کی محنت رنگ لائی اور ملک ایک بار پھر آگے بڑھنے لگا ،کسی کو کیا معلوم تھا ،کہ یہ روشن سال گزرنے والے ہیں اور ملک  ایک بار پھر آمریت کے شکنجے میں جانے والا ہے ۔یہ اسی دورکا ثمرہے ملک کو آئین ملا ، اگرچہ اگلے برسوں میں با ربار اس کا حلیہ بھی بگاڑ دیا گیامگرمحترمہ بے نظیر بھٹو کی شکل میں آئین پاکستان کو  ایک بار پھر ڈھال میسر آگئی اور ان کے اسی عزم نے انہیں ملک دشمنوں کا ہدف بنا دیا۔ 
بی بی کادور ابتلائ77ء  میں ہی شروع ہو گیا تھا جب ایک سیاہ آمریت ملک پر بہانہ بنا کر مسلط ہو گئی ،اس کے خلاف کھڑا ہونا آسان نہیں تھا ،مذہب،لسان ،علاقہ،فرقہ کونسا پہلو رہ گیا تھا جس کا منفی  استعمال اس دور میں نہیں ہوا، مقصد کیا تھا صرف یہ کہ بھٹو خاندان کو اقتدار سے دور رکھا جائے ،اس کے لئے ملک کو ایک بے مقصد جنگ کے اندر جھونکا گیا ، یہ ایک ایسی چنگاری ہے جس نے شخصی اقتدار کی ہوس میںایسی آگ بھڑکا ئے رکھی جوآج تک سلگ رہی ہے اور اس کی نذر  ہزرواں انسان ہو چکے ہیں۔دہشت گردی نے ملک کو لپیٹ میں لیا ،منشیات اور کلاشنکوف کلچر،اور گلہ فنڈ جیسی قباحتیں کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا، دوسری جانب سیاسی کارکنوں کو کوڑے پڑتے رہے ،تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ظلم کے سامنے سر نہ جھکایا،نظر بندی برداشت کی،بھائی کی پیرس میں شہادت ،تشدد ہوا،قذاقی سٹیڈیم میں محترمہ مہ نصرت بھٹو کو لہو لحان کرنے کا واقعہ،  کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں حقوق مانگنے  والوں پر گولیوں کی  بوچھاڑ ،سندھ کے دیہات کے محاصرے غرض اس دور کی سفاکیت کے بیان میں ہزاروں قرطاس سیاہ کئے جا سکتے ہیں۔
 یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی مدبرانہ قیادت ،جرأت مندی ،عالمی اور سفارتی محاذ پر دسترس اور سیاست میں اپنے  عظیم اورشہید  والد کی تربیت کا ثمر تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی  ہر بار کے آمر کوجمہوریت بحال کرنا پڑی ، اور محترمہ  نے اسلامی دنیا میں پہلی خاتون وزیر اعظم بن کر پاکستان کا تشخص اجاگر کیا۔ گوکہ نویں دہائی میں وزراء اعظم کے منصب کی بے توقیری ہوئی تو اس کی وجہ بھی صرف یہی تھی کہ  اقتدار کے ہوس پرست پس پردہ کردار ادا کرتے رہے ۔ملک میںنیم جمہوریت کا تجربہ اب تک جاری ہے ،کبھی اس نے 8 ویںترمیم کا روپ دھارا اور کبھی یہ اداروں اور ایوان صدر سے مجروح ہوتی رہی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو  نے دوسری بار اس وقت جمہوریت  کی جنگ لڑی جب1999ء کا مارشل لگا ،97سے 99ء  وہ دور تھا جب محترمہ اور  آصف علی زراداری کی زندگی کو اجیرن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی ،تما  م واقعات تاریخ کا حصہ ہیں ان کو نہ چھپایا جا سکتا ہے اور  نہ مٹایا جا سکتا ہے،وہ چاہتی تو اطمینا ن سے غیر جمہوری حکومت کی حمائت کرکے وقت گزار سکتی تھیں مگر انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کوایک پلیٹ فارم پ پر جمع کیا ،ذاتی صدمات ،دوسرے بھائی کی شہادت ،جلا وطنی کو نظرانداز کیا اور ملک کو میثاق جمہوریت کا تحفہ دیا ، ملک میںجب بھی ان کو کام کرنے کا موقع ملا انہوں نے انتھک کام کیا ،میزائل  ٹیکنالوجی،خواتین کے حقوق سمیت بہت سے کارنامے انجام دیئے ،ملک کے اند ر دوسری  بار جمہوریت کی بحالی میں ان کی جدوجہد کو سنہر  ے حروف میں لکھا جائے گا ۔ یہ خاک نشیں1986ء میںطالب علم کی حیثیت سے ڈیرہ اسماعیل خان کے  اس سٹیڈیم میں موجود تھا جہاں بے نظیر بھٹو شہید نے جلا وطنی  سے واپسی کے بعد جلسہ کیا تھا، وہ ہر دل عزیز تھیں ،تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ،پھر نام نہاد احتساب کے دور میں جب وہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ میں   پیش ہو اکرتی تھیں اور آصف علی زرداری جیل سے کورٹ میںپیش ہو اکرتے تھے،اس پورے دور میں انہیں قریب سے دیکھنے اور  رپورٹنگ کا موقع ملا۔ محترمہ بہت زیرک  ا  نسان تھیں، انہوں نے ہمیشہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اس قوم کا سوچا ،کوئی یقین کر سکتا ہے کہ جب وہ2007  میںبیرون ملک سے  کراچی آ رہی تھیں  ،لاکھوں کا جتماع ان کے استقبال کا منتطر تھا،اور ان کو دہشت گرووں کے نشانہ پر ہونے کا بھی علم تھا مگر وہ اپنے عزم ارادے پر ثابت قدم رہیں،انہوں نے اپنے آخری جلسہ سے جب لیاقت باغ میں خطاب کیا تو اس وقت بھی ان کومعلوم تھا کہ دہشت گرد حملہ کر سکتے ہیں مگر وہ عوام میں گئیں،آج کی جمہوریت اس عظیم سیاسی راہنما اور قائد کی مرہون احسان رہے گی ،خاک نشیں بہت افسرودہ ہو کر یہ بات کہتا ہے کہ ہم اپنے قائدین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ،شہید کے قتل کیس  کے ساتھ کیا سلوک ہوا،کچھ نہیں کیا گیا ،ذوالفقار علی بھٹوکے بارے میں ریفرنس اب بھی سپریم کورٹ میں ہے ،جو پاکستان کھپے کہے ہم اس کو مجرم بنا دیتے ہیں،2007ء  میں جب بلاول بھٹو نے  جمہوریت بہترین انتقام  کا نعرہ دیا آصف علی زرادری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔آج بھی جب محترمہ کے فرزند بلاول بھٹو زرداری ملک کے وزیر خارجہ ہیں اور ملکی استحکام اور اس کی سیاسی بقا کے لئے  اپنی تمام توانائی صرف کئے ہوئے ہے مگر اب بھی بہت سا سفر باقی ہے کیونکہ جمہوریت دشمن اور ملک دشمن قوتوں کے گماشتے خوبصورت چہروں کے پیچھے مکروہ  عزائم لئے حملے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن