سیاسی اختلافات چھوڑ کر دہشت گردی پر قابو پائیں
پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر سے بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا اور نیٹو افواج جب سے افغانستان کو چھوڑ کر گئی ہیں وہاں قائم ہونے والی طالبان کی عبوری حکومت نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جیلوں میں پڑے جنگجوؤں کو کھلا چھوڑ دیا اور تب سے اب تک وہ اپنے تخریب کاری کے ایجنڈے کے تحت پاکستان کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو بھارت کی حمایت اور اعانت حاصل ہے اور بھارتی خفیہ ادارہ ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ (را) اس تنظیم کو ایک کٹھ پتلی کی طرح پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ اس وقت بھی یہ تنظیم پاکستان دشمن عناصر کے ایما پر امن و سکون برباد کرنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہی ہیں اور پاکستان کے بار بار مطالبے کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت اس بات کی یقین دہانی نہیں کرا رہی کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی۔
تخریب کاری کے حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات میں سے ایک کے دوران بلوچستان کے ضلع کوہلو میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک افسر سمیت 5 فوجی جوان شہید ہوگئے۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق کوہلو کے علاقے کاہان میں خفیہ اطلاعات پر کلیئرنس آپریشن کے دوران بارودی سرنگ کا دھماکا ہوا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائیاں بلوچستان کے امن اور خوشحالی کو سبوتاژ نہیں کرسکتیں، سکیورٹی فورسز ہر قیمت پر دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ادھر، لیویز حکام نے بتایا کہ دھماکے میں 6 افراد زخمی ہوئے جنھیں ہسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ 5 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ واقعے کے بعد لیویز اور دیگر قانون نافذ کرے والے اداروں کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
اس واقعے کے علاوہ بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تخریب کاری کی وارداتیں ہوئیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں دستی بم کے حملے میں خاتون اور بچے سمیت تین افراد زخمی ہوگئے۔ سبزل روڈ پر بھی بم دھماکہ ہوا جس سے 3 خواتین سمیت 4 افراد زخمی ہوگئے۔ علاوہ ازیں، سیٹلائٹ ٹائون میں چالو باوڑی کے مقام پر پولیس کے ناکے پر نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکا، دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں اور بچے سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے۔ اسی طرح، ضلع کیچ کے علاقے تربت میں تعلیمی چوک پر قبرستان کے قریب سیکورٹی فورسز کی چیک پو سٹ کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے دستی بم پھینکا جو زوردار دھماکے سے پھٹ گیا تاہم واقعہ میں کسی قسم کے جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ حب میں بھی پیش آیا جہاں صدر تھانے کے سامنے دھماکے میں تین افراد زخمی ہوگئے۔
ادھر، بلوچستان میں ضلع ژوب کے علاقے سمبازا میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن 96 گھنٹے سے جاری تھا۔ آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے بتایا کہ آپریشن کا مقصد دہشت گردوں کو مشتبہ راستوں سے روکنا تھا۔ ان راستوں کے ذریعے دہشت گرد پاک افغان سرحد سے خیبر پختونخوا میں داخل ہوتے ہیں ۔ علاقے کی مسلسل نگرانی کے ذریعے اتوار کی صبح دہشت گردوں کے ایک گروہ کو روکا گیا جس کے بعد دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کر دی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد مارا گیا جبکہ دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں سپاہی حق نواز شہید ہوا اور 2 جوان زخمی ہو گئے۔ دیگر مجرموں کو پکڑنے کے لیے علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ژوب میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران شہید سپاہی حق نواز کو خراج عقیدت پیش کیا۔ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی پر سکیورٹی فورسز کو وزیراعظم نے خراج تحسین پیش کیا۔ قوم کے بہادر بیٹے دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملا رہے ہیں۔ قوم اپنے شہیدوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ وزیراعظم نے شہید حق نواز کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے شہید کے درجات کی بلندی اور زخمی جوانوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کیپٹن سمیت 5 فوجی جوانوں کی شہادت اندوہناک واقعہ ہے۔ قوم دفاع وطن کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ دہشت گرد عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
ان سب واقعات اور کارروائیوں کا مقصد پاکستان کومزید غیر مستحکم بنانا ہے۔ ان حالات میں سیاسی قیادت کو اپنے اختلافات بھلا کر ملک کی سلامتی سے جڑے ہوئے معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔ امریکا نے پاکستان سے کہا تو ہے کہ وہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے لیکن ہمیں اس کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ واقعی سنجیدگی سے عملی طور پر ہمارا ساتھ دیتا ہے یا نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو اس وقت دہشت گردی کے جس عفریت کا سامنا ہے وہ امریکا ہی کا پالا ہوا ہے ۔ اس صورتحال میں ہمیں بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں سے رابطہ کر کے انھیں یہ بتانا چاہیے کہ کس طرح افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت کی وجہ سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔