پہلی خاتون وزیراعظم کی شہادت
بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو پیدا ہوئیں۔ انھوں نے امریکا اور برطانیہ کی معروف اور ممتاز یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ وہ پہلی ایشیائی خاتون تھیں جنھیں آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بے نظیر بھٹو کو سیاست میں آنے کا شوق نہیں تھا۔ وہ برطانیہ میں پاکستان کی سفیر یا کسی اہم اخبار کی ایڈیٹر بننا چاہتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شاید بے نظیر کو بین الاقوامی سطح کی سفارتکار بنانا چاہتے تھے اسی لیے انھوں نے اہم عالمی سفارتکاری کے مواقع پر بے نظیر کو اپنے ساتھ رکھا۔ جب اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں ہوئی تو اس وقت بھی بے نظیربھٹو موجود تھیں۔ جب بھٹو صاحب شملہ گئے تو بے نظیر بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے کچھ عرصہ فارن آفس میں بھی کام کیا اور ڈپلومیسی کی عملی تربیت حاصل کی۔ جب جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کی شب بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء مسلط کیا اور قائدِ عوام کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع کیا تو بے نظیر بھٹو آکسفرڈ سے پاکستان واپس آگئیں تاکہ وہ اپنے پاپا کے قتل کے خلاف مقدمے کی پیروی کے لیے وکلاء کی معاونت کرسکیں۔ جب بھٹو صاحب پر مشکل وقت آیا تو ان کے رفقاء جو ان کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دینے کی قسمیں اٹھایا کرتے تھے خوف زدہ اور مصلحت کا شکار ہوگئے۔ پی پی پی کے جیالوں کی قیادت کرنے کے لیے کوئی باہر نہ نکلا۔ ان حالات میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو اور بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید نے پاکستان کے عوام اور پی پی پی کے کارکنوں کو قیادت فراہم کی۔
جب دونوں عظیم خواتین نے بھٹو صاحب سے موت کی کوٹھڑی میں آخری ملاقات کی تو انھوں نے دونوں کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں چلی جائیں۔ دونوں عظیم خواتین نے بڑے عزم اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہرگز پاکستان سے باہر نہیں جائیں گی اور ذوالفقار علی بھٹو کے مقدس مشن کی تکمیل کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گی۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’دخترِ مشرق‘ میں تحریر کیا ہے: ’ راولپنڈی سنٹرل جیل میں 4 اپریل کی صبحِ صادق سے بھی پہلے انھوں نے میرے والد کو قتل کر دیا چند میل دور سہالہ کے ایک ویران پولیس ٹریننگ کیمپ میں میں نے اپنی والدہ کے ساتھ قید اپنے والد کی موت کے اس لمحے کو محسوس کیا۔ مجھے میری والدہ نے نیند آور گولیاں دی تھیں تاکہ وہ اذیت ناک رات گزار سکوں۔ گھبراہٹ کے عالم میں میرے گلے سے چیخ نکل گئی۔ گرم موسم کے باوجود میرا جسم سرد تھا میرے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ ہم دونوں صبح سویرے اپنے والد کی میت کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئیں مگر ہمیں ان کی میت کے ہمراہ جانے اور آخری دیدار کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔‘
ذوالفقار علی بھٹو کی المناک شہادت کے بعد بھی بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1986ء میں جب بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے لاہور واپس آئیں تو عوام نے ان کا ایسا تاریخی اور پرجوش استقبال کیا کہ جس کی مثال برصغیر ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی اور آج تک کوئی اور لیڈر ان کا یہ ریکارڈ نہیں توڑ سکا۔ 1988ء کے انتخابات سے پہلے جنرل ضیاء الحق کی باقیات نے سر توڑ کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم نہ بن سکیں۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے آئی جے آئی کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا گیا۔ ہر جتن کے باوجود نے بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی اور وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان چاہتے تھے کہ بے نظیر بے اختیار وزیر اعظم کا کردار ادا کریں، لہٰذا انھوں نے اہم سرکاری فائلیں ایوانِ صدر منگوانا شروع کر دیں۔ بے نظیر بھٹو نے کابینہ مکمل ہونے کے بعد غلام اسحاق خان کو فون کیا اور کہا کہ وہ خود بیوروکریسی کو ہدایت کریں کہ فائلیں وزیراعظم کو ارسال کی جائیں تاکہ پاکستان کا وقار قائم رہے کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ وزیراعظم اس ضمن میں ڈائریکٹیو جاری کرے اور صدر کی عزت پر حرف آئے۔
بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں تیس سال تک عملی سیاست کی۔ انھوں نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف دونوں آ مروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پی پی پی کے جیالوں نے بھی بے نظیر بھٹو کی قیادت میں تاریخ کی بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ نامور انقلابی شاعر حبیب جالب نے ’ایک نہتی لڑکی‘ کے عنوان سے نظم لکھ کر بے نظیر کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ جب بے نظیر بھٹو 2007ء میں پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں عوام نے ایک بار پھر ان کا تاریخی استقبال کیا۔ استقبالیہ ریلی میں دہشت گردوں نے خود کش دھماکہ کرکے بے نظیر بھٹو کو نشانہ بنایا جس میں پی پی پی کے ڈھائی سو غریب کارکن شہید ہوگئے۔ یہ خود کش دھماکہ بے نظیر بھٹو کو خوفزدہ کرنے کے لیے کرایا گیا تاکہ وہ پاکستان سے واپس چلی جائیں۔ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کو چھوڑنے سے انکار کردیا اور جب وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں عوام کے تاریخی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد واپس جانے لگیں تو ان کو ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بناکر شہید کردیا گیا۔
یہ تاریخ کا ایک المناک سچ ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے اصل قاتلوں اور منصوبہ سازوں کا آج تک علم نہیں ہو سکا۔ پی پی پی 2008ء سے 2013ء تک اقتدار میں رہی مگر بے نظیر کے قاتلوں کا سراغ نہ لگا سکی۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں انگریزوں کے بنائے ہوئے سیاسی، معاشی اور ریاستی نظام میں عوامی انقلابی بہادر لیڈروں کی کوئی گنجائش نہیں۔ امریکا اور اس کے پاکستانی معاون اور سہولت کار یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ کوئی پاپولر، مضبوط اور بہادر لیڈر پاکستان کی قیادت کرکے پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دے۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو قد آور لیڈر تھے جب ان کو اندرونی بیرونی سازش سے سیاسی منظر سے ہٹایا گیا تو پست قد لیڈر غلام محمد، جنرل ضیاء الحق اور آصف زرداری اقتدار پر قابض ہوگئے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت میں امریکا جنرل پرویز مشرف اور طالبان کی خاموش تائید شامل تھی۔ آصف زرداری نے قاتلوں اور منصوبہ سازوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش نہ کی۔