منگل ،3جمادی الثانی 1444ھ،27 دسمبر2022ء
دورہ ڈی آئی خان ، خیبر پی کے حکومت کا گورنر کو ہیلی کاپٹر دینے سے انکار
کیا یہ وقت ہے کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی جائے۔ ایک طرف ہمارے بیرونی دشمن ہمیں سرحد پار سے نشانہ بنا رہے ہیں، دوسری طرف ہمارے اندرونی دشمن ہم پر حملہ آور ہیں۔ ہمارے محافظ سرحدوں پر اور اندرون ملک دشمنوں کے سامنے آہنی ڈھال بن کر ملک و قوم کی حفاظت کر رہے ہیں۔ بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں یہ سیاسی میدان میں ہی دیکھ لیں۔ ابھی تک پوری قوم خطرات کا ادراک نہیں کر پا رہی اور سیاسی میدان میں دست گریباں ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بدزبانیاں کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ گلی محلے کی بدزبانی سیاست میں عام ہے۔ اب اس کا اثر حکومتی اداروں پہ بھی پڑنے لگا ہے۔ گورنر خیبر پی کے کودیکھ لیں وہاں کی حکومت نے انہیں ہیلی کاپٹر دینے سے انکار کر دیا ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان دورے پر جا رہے تھے۔ جس کے بعد گورنر بائی روڈ وہاں گئے۔ اب اگر کوئی اس میں اپنی فتح اور دوسرے کی سبکی محسوس کرتا ہے تو یہ عامیانہ سوچ ہے۔ گورنر صوبے میں وفاق کی علامت اور بڑا بھائی کہہ لیں یا باپ کی مانند ہوتا ہے۔ مگر افسوس سیاسی اختلاف کی وجہ سے ہم نے اچھے بھلے رشتوں کا بھی بھرم توڑ دیا ہے۔ اگر یہ ہیلی کاپٹر ایک سیاستدان کے لیے جو صرف پارٹی کا سربراہ ہے استعمال ہو سکتا ہے اور موجودہ حکومت خیبر پی کے اسے قانونی طور پر جائز قرار دینے اور اس کے غیر سرکاری استعمال کے الزامات سے حساب کتاب سے بچنے کے لیے قانون سازی تک کر چکی ہے جس کا بل گورنر کے دستخط کے لیے بھیجا ہے تو پھر ایک آئینی عہدیدار کے لیے اس کا استعمال کیوں روک رہی ہے۔ گورنر نے ہیلی کاپٹر پر جھولے تو نہیں لینے تھے دورے پر ہی جانا تھا۔ اس طرح سوتنوں والا سلوک اچھا نہیں لگتا۔ اب ہمارے سیاستدانوں اور حکومتی عہدیداروں کو سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ زنانیوں والی لڑائی بند کرنی چاہیے۔
٭٭٭٭٭
کراچی کے مکینک کی پرانے سکوٹر کو جدید بنانے پر یورپی شہریوں کی داد
کون کہتا ہے ہمارے ہاں ٹیلنٹ نہیں ہے۔ ہم میں آگے بڑھنے کا جذبہ نہیں ہے مگر کیا کریں۔ ہم خود اپنا ٹیلنٹ تلاش کرنے کی بجائے اس کو ضائع کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر کوئی نوجوان یا ذہین شخص کوئی نئی چیز بنا لے تو بجائے اس کے ہم اس کی مدد کریں اس کی حوصلہ افزائی کریں ہم اسے نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اسکی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ کوئی بے چارہ پانی سے گاڑی چلانے کی کوشش کرتا ہے، کوئی دستیاب سامان سے ہوائی جہاز بنانے میں کامیاب ہوتا ہے تو بجائے اسکے کہ ہم اسکے ساتھ تعاون کریں ، انہیں مذاق کا نشانہ بنا کر خاموش کرا دیتے ہیں۔ اب کراچی کے اس نوجوان موٹر مکینک کو ہی دیکھ لیں جس نے 60 سال پرانے ویسپا سکوٹر کو اپنی فنی مہارت سے اس طرح تیار کیا جس طرح بیوٹی پارلر والے عام سی شکل کو چند آفتاب چند ماہتاب بنا دیتے ہیں۔ مکینک آصف نے جس طرح اس پرانے ویسپا سکوٹر کو کشمش سے دوبارہ انگور بنا دیا۔ اس پر یورپی شہری بھی جو نت نئی ایجادات کے عادی ہیں عش عش کر اُٹھے اور آصف کو اس کی مہارت کی داد دئیے بنا نہ رہ سکے۔ اگر اسے کوئی حکومتی ادارہ یا اِہل دل ہنر دوست کی مدد مل جائے تو یہ اس کام میں مزید بہتری لا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں پرانی گاڑیوں ، موٹر سائیکل کو جدید ساخت کیساتھ نئی شکل دی جاتی ہے اور بہت پسند بھی کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس تو ایسے بے شمار ماہر موجود ہیں جو گلیوں ، سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر اپنا ہنر آزماتے ہیں اور پرانے کھٹارہ موٹر سائیکلوں، رکشوں، گاڑیوں تک کوجو چلنے کے قابل نہیں ہوتے نئی نویلی دلہن کی طرح تیار کرتے ہیں جو ہماری سڑکوں پر رواں دواں نظر آتے ہیں۔ انکی سرپرستی کی جائے تو یہ دنیا بھر میں نام کما سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی مدد کی پیشکش
سچ کہیں تو ہم امریکی امداد اور مدد دونوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔ اب امریکہ کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف مدد کا سن کر ہمارے ہاتھ پائوں پھولنے لگے ہیں۔ ہم نے افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بن کر اس مدد کا بہت مزہ لے لیا ہے۔
رنج کچھ ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوست کچھ ایسے بنائے ہیں کہ جی جانتا ہے
امریکی امداد تو پولیس کے ساتھ دوستی والی بات ہے صلح بھی خطرناک جنگ بھی خطرناک ہوتی ہے۔ افغان وار میں ہم نے جان بھی لڑا دی مالی نقصان بھی اٹھایا مگر صلہ کیا ملا۔ ڈومور، نفرت، الزامات ، امدادی رقم میں کٹوتیاں40 سال کے تلخ تجربات گواہ ہیں کہ ہمیں فخر سے فرنٹ لائن اتحادی کہنے والوں نے کس طرح ہماری محبت کا جواب ہمارے دشمن بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھا کر دیا۔ اسے اپنا روایتی پارٹنر اور دوست بنا کر اس کی ہر برائی کو نظرانداز کر دیا۔ اب پھر ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں دہشتگردوں کے خلاف مدد کے نام پر امریکہ ہمیں میدان جنگ نہ بنا دے۔ اس لیے ہمیں پہلے ہی ’’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘ کہہ کر اپنی جان بچانی چاہیے۔ ہاں اگر امریکہ واقعی ہماری خیر خواہی چاہتا ہے تو وہ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ہماری سکیورٹی کو بہتر اور مضبوط بنانے کے لیے جدید اسلحہ فنڈز اور تربیت کا بندوبست کرے خود اس جنگ کے نام پر ہمارا بینڈ نہ بجائے۔ اس دہشت گردی میں ملوث بھارت اور افغان حکام کو لگام ڈالے ان کی گوشمالی کرے۔ جب مراکز ہی ختم ہوں گے تو حملے کون کرے گا۔ یہ سب کچھ بھارت کی مدد سے دہشت گرد کر رہے ہیں خواہ ٹی ٹی پی والے ہوں یا بی ایل اے والے ان کی سرپرستی بھارت کر رہا ہے جو امریکہ کی نئی محبوبہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ پہلے اسے سدھارے۔ اِدھر اُدھر کے آوارہ لفنگے خود قابو میں آ جائیں گے۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں ڈکیتی کی درجنوں وارداتیں۔ پولیس قابو پانے میں ناکام
جب تک پولیس میں ہمہ وقت تبادلوں کا کھیل جاری رہے گا۔ پولیس کی توجہ اپنے کام سے زیادہ تبادلوں کی طرف رہے گی۔ سیاسی کھیل میں پولیس کا کباڑہ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت کبھی اسمبلی اجلاس، کبھی خصوصی ڈیوٹیوں ، کبھی ذاتی پروٹوکول ، کبھی کچھ ، کبھی کچھ کے نام پر پولیس کو اس کے اصل کام سے ہٹا کر ذاتی کاموں پر لگانے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ لاہور شہر جو پنجاب کا دارالحکومت ہے۔ قدم قدم پر لگے کیمروں اور ناکوں کے باوجود ابھی تک سیف سٹی کے تمام تر دعوئوں اور اعلانات کے ثمرات سے محروم ہے۔ کراچی کی طرح یہاں بھی چوری، ڈکیتی، قتل ، اغوا، زیادتی کی وارداتیں جس طرح ہو رہی ہیں اس سے لوگ خوفزدہ ہیں۔ وارداتوں کے بعد ملزم گدھے کے سر پہ سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ پولیس اپنے طور ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ ان وارداتوں پر قابو پایا جائے مگر غربت، بے راہ روی اور بے روزگاری نے سارا نظام چوپٹ کر دیاہے۔ اوپر سے اگر کوئی ملزم قابو آ جائے تو اسے بااثر افراد کی سفارش یا عدالتی کاروائیوں سے چھوٹ مل جاتی ہے۔ یوں وہ ناتجربہ کار بھی چھوٹی موٹی وارداتوں کے بعد پختہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ تو دارالحکومت کا حال ہے۔ باقی شہروں میں کیا ہوتا ہے ۔ لوگ تو دعائیں کرتے ہیں کہ وہ برے وقت، حادثات اور چوروں، ڈاکوئوں سے محفوظ رہیں۔ گھر سے جانے والے کی فکر لگی رہتی ہے کہ کسی چور یا ڈاکو کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ زیادہ تر لوگ جو دوسرے علاقوں سے آئے ہوتے ہیں وہ ایسی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں اس لیے پولیس کو کوئی ایسا نظام مرتب کرنا ہو گا کہ بنا پولیس اطلاع کے کوئی کسی گھر، دفتر ، ہوٹل یا ہوسٹل میں مقیم نہ ہو اور کرائے کی گاڑی یا موٹر سائیکل حاصل نہ کر سکے۔ پیدل تو کوئی واردات کرنے سے رہا۔
٭٭٭٭٭