یہ کیا ہو رہا ہے؟
پاکستان کی سیاسی بساط پر آج کل عجیب و غریب چالیں چلی جا رہی ہیں کبھی بادشاہ کو بچانے کے لئے وزیر کو میدان میں نکالا جاتا ہے اور کبھی کبھار کچھ ”پیادے“ اپنے وزیر اور بادشاہ کو بچانے میں اپنی جان سے ہار جاتے ہیں اور انہیں بساط سے باہر پھینک دیا جاتا ہے،وزیر اور بادشاہ کی حفاظت پر مامور ”قلعے“ ہاتھی اور گھوڑے بھی اپنی اپنی مخصوص چالیں چلتے ہوئے مد مقابل سے ٹکرا رہے ہیں اور گرتے جا رہے ہیں۔ایک آدھ بار تو ایسا بھی ہ±وا کہ بادشاہ کو مات ہوتے ہوتے رہ گئی لیکن اس ”شکست“ نما مات سے بچانے کے چکر میں بساط کے طاقتور مہرے گرانے پڑ گئے۔وزیر اگر د±شمن کی زد میں آیا تو اِرد گرد حفاظتی مہروں کی قربانی دینا پڑ گئی، قربانی دینے والوں کو ہمیشہ تاریخوں میں یاد رکھا جاتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ ا±ن کے جانے کے بعد انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے لیکن وطن عزیز میں قربانی دینے والے ابھی گئے نہیں تھے یعنی جانے والے تھے ا±ن کو خراج تحسین دینے کی بجائے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔شائد سیاست چیز ہی ایسی ہے کہ اِس کو کرتے وقت رشتے ناطے سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے، جس کا سیاسی تناو¿ اس وقت پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے پہلے ایسا کچھ بھی دیکھنے کو کبھی نہیں ملا یا شائد تب سوشل میڈیا اتنا تیز نہیں تھا کہ وطن عزیز میں ہونے والے تمام کام ہر پاکستانی کو معلوم ہوتے، اب جدید دور میں ایک عام پاکستانی شہری بھی جانتا ہے کہ کس نے کس وقت کیا کیا؟ کون کسے لاتا ہے؟ کس نے کس کو واپس بھیجا؟ اور کون مدت سے گئے ہوووں کو واپس لایا؟سیاسی تناو¿ کی ایک زندہ مثال یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں نہیں مان رہی اور کچھ صوبے وفاقی حکومت کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ پنجاب کی حکومت وفاقی نمائندوں کو ایف آئی آروں میں نامزد کروا رہی ہے اور وفاقی نمائندے صوبائی ممبران کو مجرم ثابت کرنے پر ”تلے“ ہوئے ہیں۔ایک اطلاع ملتی ہے کہ عمران خان نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کو توڑ دینا ہے دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے مارچ تک اسمبلی نہ توڑنے کا عندیہ دیا ہے، تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان سابق آرمی چیف کے خلاف بولتے ہیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ باجوہ صاحب کے مجھ سمیت تحریک انصاف پر احسانات ہیں اور محسنوں کو بھولنا نہیں چاہیئے اب اگر کوئی قمر باجوہ کے خلاف بولا تو میں ا±س کی مخالفت کروں گا اور جب میں بولا تو میری پارٹی بھی بولے گی، تازہ اطلاع آتی ہے کہ مسلم لیگ ن نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی توڑنے کا حتمی فیصلہ ہوا تو تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی اور پرویز الہیٰ کو وزارت اعلیٰ سے ا±تار دیا جائے گا، پھر معلوم پڑتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور قاف مل بیٹھے ہیں اب پرویز الٰہی ن لیگ کے وزیر اعلیٰ ہوں گے،اگلے ہی دن گورنر پنجاب وزیر اعلیٰ کو ”ڈی نوٹیفائڈ“ کر دیتے ہیں، وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ اپنی فریاد عدالت میں لے جاتے ہیں اور عدالت اِ س شرط پر وزیر اعلیٰ کو بحال کرتی ہے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟میرے خیال میں پرویز الہیٰ پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے اس لئے انہیں موقع مل گیا کہ وہ تحریک انصاف کے کارکنان کے عتاب سے بچ سکیں اس لئے انہوں نے عدالت میں ”مان“ لیا کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے۔ اِ س سارے معاملے کو مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ قاف کی ملی بھگت نہ کہیں تو اورڈرامے کو کیا کہا جائے؟ یعنی سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ویسے دیکھا جائے تو گجرات کے چوہدریوں کے پاس ایسی کوئی ”گیڈر سنگھی“ ضرور ہے جس کی وجہ سے چوہدری شجاعت سے پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ رکھنے کی ضمانت مانگی جاتی ہے، اور تحریک انصاف بھی پرویز الہیٰ کے سامنے صرف 10سیٹوں کے زور پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی ہے حالانکہ عمران خان اس عمل سے تحریک انصاف کے بہت سے ممبر پارلیمنٹ ناراض ہیں۔ مجھے یہ اطلاع ضرور دیں کہ پاکستان کو چلا کون رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مت کہیئے گا کیونکہ وہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ بس اللہ ہی ہے جو ہمارے پاکستان کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے ورنہ جس طرح پاکستان میں آنے والی ہر حکومت کے نمائندے د±نیا بھراور ورلڈ بینک سے قرضے لے کر اپنا وقت ”سار“ رہے اور دوسرے ممالک میں اپنی جائیدادیں بنا رہے ہیں اب تک نہ جانے کتنی بار پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہوتا، افغانستان کی ہمارے وطن میں در اندازی اور طالبان کی کاروائیاں بھی سب پر عیاں ہیں ہمارے حکمرانوں کو اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، سرحدوں پر آنکھیں کھول کر رکھنا ہوں گی بالکل ا±سی طرح جس طرح وہ قومی خزانے اور قرضوں پر رکھتے ہیں۔افغانستانیوں کی کارستانیوں سے یاد آیا کہ ایک افغانی نے مجھے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہمارا صدر ”حامد قرضائی“ہے تو میں نے ا±سے سینہ تان کر جواب دیا تھا کہ تمہارا ایک صدر قرضائی ہے اور پاکستان کا ہر پیدا ہونے والا بچہ قرضائی (قرضے میں جکڑا ہوا) ہوتا ہے۔