دیوان امام زین العابدین
سندھ کے قدیم گھرانے کے سربراہ الطاف حسین قادری کے آباواجداد دو سو سال سے علم وادب سے وابستہ رہنے کے ساتھ معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھانے کے علاوہ ادب اور آرٹ کو شعار بناتے ہوئے انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے ، انہوں نے تصوف ، علم و ادب اور شعر و شاعری کے فروغ میں گراں قدر خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ سندھ کی روایتی ثقافت اور تہذیب وتمدن کو پروان چڑھایا،یہی وجہ ہے کہ اس خاندان کو کئی ادارہ ساز شخصیات کے علاوہ سندھی ادب کی رجحان ساز ہستیوں نے برِ صغیر میںانفرادیت بخشی، جن میں تین صاحب ِ دیوان شاعر ، فقیر میاں محمد صالح قادری جن کی خانقاہ لاڑکانہ سندھ میں ہے، الطاف حسین قادری کے والدمرحوم فقیر میاں غلام عباس قادری جوش جو کہ اپنے عہد کی معروف شخصیت تھے ، اور ڈاکٹر ایاز حسین قادری جو کہ الطاف حسین قادری کے برادرِ نسبتی تھے ۔ زیرِ تبصرہ دیوان امام زین العابدین جو کہ حضرت امام حسینؑ کے فرزند تھے ، آپ کی والدہ ماجدہ نوشیروانِ عادل کی پوتی یزدگرد کی صاحب زادی شہر بانو جو کہ عرب و عجم کے مابین رابطہ تھیں ، امام زین العابدین کو والدہ کی عفت و طہارت ، کاملیت بلند اخلاق ، آداب و ذکاوت کی وجہ سے ” ابن الخیرتین“ بھی کہا جاتا ہے ،دیوان امام زین العابدین علی بن الحسین کاچار زبانوں سندھی، اردو، انگلش اور فار سی میں ترجمہ کرنے والی اعلیٰ دینی، علمی و ادبی شخصیات مولانا تلمیذ حسین نقوی ، پروفیسر انیتا غلام علی، اور اعجاز علی بیگ مرزاہیں، جبکہ الطاف حسین قادری کے فرزند ذوالفقار علی قادری نے اسے مرتب کیا ہے،آزاد کمیونیکیشنز کراچی کے فضل الرحمن میمن نے دیوان کی ڈیزائنگ کی اور ذوالفقار علی قادری نے قادری قلم قبیلو لاڑکانہ ، کراچی سے شائع کیا تھا جس کی پہلی اشاعت 2009 ءمیں ہوئی تھی جب کہ دوسری اور تیسری اشاعت 2013 ءمیں چوتھی اور پانچویں اشاعت رواں سال 2022 ءمیں ہوئی ہے ۔یہ دیوان زین العابدین کے اخلاقی اور عرفانی عربی زبان میں لکھے گئے اشعار کا مجموعہ ہے، جو کہ ذوالفقار علی قادری کے والد الطاف حسین قادری نے انہیں سپرد کیا تھا ، ذوالفقار علی قادری کے مطابق ان کی آبائی لائبریری جس میں بیش بہا قدیم اور نادر کتب کا ذخیرہ موجود ہے، امام زین العابدین کے رشحاتِ قلم اسی لائبریری میں زمانہ قدیم سے محفوظ تھے ، ذوالفقار علی قادری کی یہ بختاوری کہ کتابوں کی چھاب بین کے دوران خوش طالعی سے ایک کتاب میں سے امام زین العابدین کے دستِ مبارک سے لکھے یہ مبارک رشحاتِ قلم ان کی جھولی میں آ پڑے، جو کہ دیوان زین العابدین کی صورت میں ایک عمدہ اور خوبصورت کتاب کی شکل میںفارسی، انگریزی، سندھی اور اردو ترجمہ کے ساتھ قادری قلم قبیلو لاڑکانہ۔کراچی میں دستیاب ہیں ۔
عرب کی تہذیب و ثقافت میں شعر و ادب کی زبان دین کی تبلیغ کا ایک مربوط اور اہم ذریعہ رہا ہے ، حضرت ابو طالب اپنے دور کے مشہور و معروف شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے آپ ﷺ اور اُن کے مقصد کی حمایت و نصرت کا حق ادا کیا ، آپ ﷺ کو شعر گوئی سے منع فرمایا گیا تھا تا کہ قرآن پاک کے اعجاز پر یہ حرف نا آئے کہ یہ شعری مجموعہ ہے ، اور کفار عرب کا آپ ﷺ پر یہ الزام درست ثابت نا ہو کہ آپ محمد ﷺ شاعر ہیں ، لیکن حضرت ابوطالب کے بعد عرب میں شاعری کا مثبت رجحان معاشرے کی اصلاح اور خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت کی تعلیم کو عام کرنے کے اغراض و مقاصد کے لئے آئًمہ کرام نے اپنایا۔
یہ ذوالفقار علی قادری کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی کاوشوں اور محنت میں ان کے گرا ں قدر ادبی دوست احباب نے حبِ زین العابدین میں دیوان زین العابدین کو مرتب کرنے میں ان سے بھر پوتعاون کیا جن میںجناب آصف علی منگی ،ایم شفیع اصلاحی ، پروفیسر علی رضا شاہ نقوی جو کہ سابق پرنسپل گورنمنٹ پریمیئر کالج نارتھ ناظم آباد کراچی ہیں، چیئر مین المہدی سوسائٹی لاڑکانہ مولانا ایاز علی قمی ، سجادہ نشین درگاہ سید جاڑل شاہ بخاری لاڑکانہ سید محمود حسین شاہ ، الحاج سید قمر عباس نقوی پرنسپل درگاہابو الفضل العباس لاڑکانہ ، محترم ناظم زیدی نیو جرسی امریکہ اور حجة الاسلام و المسلمین علامہ سید تلمیذ حسنین رضوی نیو جرسی امریکہ ہیں دیوان پر علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی نے اپنی رائے میں لکھا ہے کہ ’ ’ دیوان الامام السجاد زین العابدین علی بن الحسین ؑ شعر و ادب کا وہ آب دار خزینہ ہے جو امام چہارم سے منسوب ہے ، جو کہ اشعار کا اعلیٰ ترین مجموعہ ہے۔
زیرِ نظر دیوان کے اشعار احکامِ خداوندی میں پنہاں روحانی، نورانی، اور معنوی اعتبار سے دنیا اور آخرت کا چشم کشاءاور سبق آموز مجموعہ ہیں ، جن کا اردو منظوم ترجمہ دو عظیم المرتبت ادیبوں محترم محشر لکھنوی اور محترم ڈاکٹر جاوید منظرنے کیا ہے ، فانی دنیا کی حقیقت کیا ہے حرف ” الف “ میں امام زین العابدین نصیحت فرماتے ہیں کہ ” یہ دنیا جس کی طرف ہم راغب و مائل ہیںاپنے تمام سازوسامان کے ساتھ فناو زائل ہونے والی ہے ، آگاہ ہو جاﺅ کہ اس دارِ فانی کی طرف میل و رغبت صرف ایک دھوکا اور فریب ہے ،جو ذلت و رسوائی اور بد بختی کی طرف لے جاتی ہے ، اور اس میں بسنے والا بہت جلد اس سے کوچ کر جائے گا ، چاہے وہ اس میں رہنے کی کتنی ہی خواہش کیوں نہ رکھتا ہواور حریص ہو۔