موجودہ معاشی بحران اور سیاسی رسہ کشی
پاکستان کو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور حکومت کی بار بار یقین دہانی کے باوجود سنگین حالات یعنی ڈیفالٹ کے خطرات مزید بڑھتے جارہے ہیں اور ایسی صورتحال میں ملک کسی صورت آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی چار سال کی کم ترین سطح پرآگئی ہے اور ڈالرزکی عدم دستیابی کی وجہ سے ملک کا درآمدی مال جس میں تیل،خوردنی تیل، ادویات،برآمدی شعبے کا خام مال ،مشینری و پلانٹس اور دوسرے شعبوںکے لیے منگوائی جانے والی درآمدی کارگو بینکوںکی جانب سے ایل سی کے لیے ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں ۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ چند ہفتوں میں ڈالر کی قیمت 200 روپے سے نیچے ہوگی لیکن ڈالر کا حالیہ ایکسچینج ریٹ 224ہے جو 300 روپے تک جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت تقریباً 250روپے تک پہنچی ہوئی ہے۔ مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کم ظاہر کرنے سے ملکی معیشت کو نقصان ہورہا ہے کیونکہ انٹر بینک میں ڈالر 224روپے اور بلیک مارکیٹ میں 250کا ریٹ ملنے کی وجہ سے لوگ بینکنگ کے ذرائع استعمال کرنے کی بجائے ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیج رہے ہیںاور ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں 20 فیصد کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اسکے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت ملنے والی قسط انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس کے آثار بھی ابھی نظر نہیں آرہے۔ پاکستان کو اس مالی سال میں 30 ارب ڈالر سے زائدکی بیرونی ادائیگیاںبھی کرنی ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت سٹیٹ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے پاس 6.7ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائرہیں جبکہ ملک میں مجموعی طور پر 12.6ارب ڈالر کے ذخائر ہیں اور ملک میں ڈالر لانے والے تین اہم ذریعے برآمدات ، ترسیلات زر،اور غیر ملکی سرمایہ کاری گزشتہ چند مہینوں میں منفی گروتھ ریکارڈ کر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ایسٹر پریز نے کہا ہے کہ پاکستان سے مثبت بات چیت چل رہی ہے اور معاشی اہداف کا ازسر نو جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو مختلف معاشی اعداد وشمار کا دوبارہ تعین کرنا ہوگا اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے خسارہ کنٹرول کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنا ہوں گی اور اندرونی اور بیرونی ادائیگیوںکے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو کامیاب کرانا نہایت ناگزیر ہے ورنہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک(اے ڈی بی) کے مشن بھی پاکستان نہیں آئیں گے اور ملکی معیشت کی کشتی مزید بھنور میں پھنس جائے گیااور مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوجائے گا جسے کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کی سیاست لمحہ بہ لمحہ حسرتوں کوجنم دے رہی ہے ۔سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ملک میں جلد از جلد عام انتخابات کے انعقاد کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ تحریک انصاف کی سنیئر قیادت کی خواہش ہے کہ عام انتخابات23 مارچ2023ءسے پہلے ہوجائیں ۔ سیاسی گہماگہمی اس وقت عروج پر ہے اور مختلف سیاسی رہنماﺅں کی ملاقاتوں میں تیزی دےکھنے میں آرہی ہے ۔اسی حوالے سے وفاقی وزےر برائے قانون وانصاف سینیٹراعظم نذےر تارڑ اور سردار ایاز صادق نے لاہور میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی جس میں ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال پر گفتگو کی گئی۔ اس کے بعد صدرعارف علوی نے لاہور زمان پارک میں عمران خان سے بھی ملاقات کی۔ علا وہ ازیں، عمران خان کی پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی سے بھی ملاقات ہوئی یعنی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ چند روز میں بہت ہی اہم فیصلے متوقع ہیں جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف جو بھی اسمبلی تحلیل کرے گی اس پر ضمنی انتخابات کروادیے جائیں گے اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ممبرز کے استعفوں کے نتیجے میں انتخابات نہیں ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت جب ملک معاشی طور پر شدید بحران کا شکار ہو چکا ہے مزید سیاسی تعطل و بحران کی گمبھیرنوعیت کا سامنا کر سکے گا ۔ منیر نیازی نے اسی صورتحال کے پیش نظر کہا تھا:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ