• news

مسائل میں دھنسے عوام کی بے چارگی اور معیشت کی تباہ حالی


میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں سردی کی شدت بڑھتے ہی بجلی اور گیس کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے جس کے باعث شہریوں کا جینا محال ہو گیا ہے۔ اسی طرح سردی کی شدت بڑھتے ہی دھند کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے جس کے باعث شہریوں کی آمدورفت بھی متاثر ہو رہی ہے، ٹرینیں بھی تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں جس سے مسافروں کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔ اس وقت بجلی کا مجموعی شارٹ فال 4321 میگاواٹ تک جا پہنچا ہے جبکہ لیسکو کو 300 میگاواٹ شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اسی طرح گیس کی بندش اور کم پریشر سے بھی شہری پریشان ہیں اور بازار سے مہنگی لکڑیاں اور ایل پی جی خریدنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے آئندہ 24 گھنٹے میں موسم سرد اور خشک رہنے کی پیش گوئی کی ہے جبکہ خشک سردی کے باعث شہری بیمار ہو رہے ہیں اور مہنگی ادویات کے باعث ان پر اضافی مالی بوجھ پڑ رہا ہے۔ متعدد شہروں میں گیس کی بندش کا دورانیہ 18 گھنٹے سے 20 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے اور بنیادی سہولتیں دستیاب نہ ہونے کے باعث شہری فاقہ کشی پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں عوام میں یہ عام تاثر پھیل رہا ہے کہ حکومت نے شہریوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں ایل پی جی 270 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے چنانچہ شہری سردی کی شدت سے بچنے کیلئے گیس ہیٹر چلانے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے الگ سے شہریوں کا برا حال کر رکھا ہے جس سے شہریوں کے کاروبار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پاور ڈویژن کے ذرائع کے مطابق اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار 9 ہزار 179 میگاواٹ ہے جبکہ طلب 13 ہزار پانچ سو میگاواٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ سرکاری تھرمل پاور پلانٹ سے صرف ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم ہو رہی ہے جبکہ نجی شعبے کے بجلی گھروں کی پیداوار پانچ ہزار 555 میگاواٹ ہے۔ شمسی توانائی سے 32 میگاواٹ اور بگاس سے 42 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جبکہ ڈیمز کے ذریعے ہائیڈل بجلی کی پیداوار اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور توانائی کے سنگین بحران میں دھنسے بے وسیلہ عوام الناس آج عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں اور اہل اقتدار کو عوام کے مسائل کے حل کا کوئی چارہ کرنے کی فکر ہی لاحق نہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کو اپنے حالیہ اقتدار کے آٹھ ماہ بعد یہ احساس ہوا کہ انہیں تو معیشت ہی تباہ حال ملی تھی جبکہ انہیں حلف اٹھاتے وقت اس کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ ملک کے اقتصادی حالات اتنے زیادہ خراب ہیں۔ اب وہ عوام کو مہنگائی کے عفریت سے بچانے کیلئے مزید وقت مانگ رہے ہیں۔ انہیں آئندہ انتخابات تک کم و بیش مزید آٹھ ماہ کا وقت تو دستیاب ہے جس کے دوران وہ ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست کے قالب میں ڈھالنے کیلئے انقلابی اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ معیشت کی بگڑی سمت کو اپنی اقتصادی ٹیم کے ذریعے درست کر سکتے ہیں اور عوام کے روٹی‘ روزگار اور توانائی کے بحران سے متعلق مسائل کے حل کیلئے زبانی جمع خرچ سے باہر نکل کر جامع اور عملیت پسندی کے مظاہرے والی قومی اقتصادی پالیسی مرتب کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ عوام کا اعتماد حاصل کرکے اگلے انتخابات کے ذریعے مزید پانچ سال کا وقت لے سکتے ہیں مگر زمینی حقائق تو اب بھی یہی ہیں کہ حکمران اشرافیہ طبقات کے اللے تللے بدستور جاری ہیں اور راندہ¿ درگاہ عوام کے مقابل انکے پاس وسائل اور دھن دولت کی کوئی کمی نہیں جس کے بل بوتے پر وہ ہر قسم کی آسائشات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اگر مہنگائی‘ بے روزگاری‘ وسائل کی کمی اور بجلی‘ گیس کی قلت کے ساتھ ساتھ انکے نرخوں میں بے مہابہ اضافے نے ملک کے شہریوں میں سے کسی کو بے بس و لاچار اور عملاً زندہ درگور کیا ہے تو وہ عوام الناس ہی ہیں جن کے ووٹ کی طاقت سے ہی حکمران اشرافیہ طبقات اپنے اگلے اقتدار کی راہ بھی ہموار کرلیتے ہیں مگر سلطانی¿ جمہور کے ثمرات کی عوام الناس کو کبھی بھنک تک نہیں پڑنے دیتے۔ اس کلچر میں بھلا عوام الناس کی کیسے پذیرائی اور عزت افزائی ہو سکتی ہے۔ 
اس تناظر میں اب اہل اقتدار کو‘ چاہے اپنے اللے تللے برقرار رکھنے کیلئے ہی سہی‘ آئندہ انتخابات سے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو انہیں عوام کو مسائل کے دلدل سے نکالنے اور حقیقی ریلیف فراہم کرنے کیلئے موجودہ آٹھ ماہ کے دوران حقیقی انقلابی اقدامات اٹھانا ہونگے۔ بصورت دیگر عوام کا سلطانی¿ جمہور سے بھی اعتماد اٹھ سکتا ہے۔ بے شک آج ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی ہماری معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ کورونا وائرس بھی دوبارہ سر اٹھا رہا ہے تاہم قدرتی آفات کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالے مسائل کا دنیا کی بیشتر اقوام کو سامنا ہے۔ ان میں پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کی معیشت اربوں ڈالر کی بیرونی امداد حاصل ہونے کے باوجود مسلسل بگڑتی ہی چلی جارہی ہے۔ نتیجتاً عوام کے مسائل تو بڑھ ہی رہے ہیں‘ ڈونر ممالک کے اعتماد میں بھی ہمارے معاملہ میں کمی پیدا ہو رہی ہے۔ 
اس حوالے سے آج یقیناً تمام قومی سیاسی قیادتوں اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کے باہم یکسو اور یکجہت ہو کر ملکی معیشت کی تباہ حالی کا باعث بننے والے عوامل و محرکات کا کھوج لگانے اور ایک جامع اقتصادی اور مالی پالیسی طے اور لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی غوروفکر کرلیا جائے کہ ہم دریاﺅں کی صورت میں پانی کے وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود سستی ہائیڈل بجلی کی پیداوار کیوں نہیں بڑھا سکے اور کیوں مہنگی تھرمل بجلی کیلئے نجی کمپنیوں کو بدستور اپنی مجبوری بنائے بیٹھے ہیں۔ اگر میاں نوازشریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں بجلی کی پیداوار پچاس ہزار میگاواٹ تک لے جانے کا عزم باندھا تھا تو اس کیلئے کیا عملی اقدامات اٹھائے گئے اور اب موجودہ حکمران لیگی قیادت اس معاملہ میں کتنی سنجیدہ ہے۔ یہ صورتحال قومی سیاسی قیادتوں سے اپنے اپنے کتھارسس کی متقاضی ہے ورنہ اقوام عالم میں ترقی کے تیز ترین سفر میں ہم ترقی ¿معکوس کی مثال بن کر رہ جائیں گے۔ 

ای پیپر-دی نیشن