• news

مغربی امدادی اداروں کی تخریبی سرگرمیاں


پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ترقی یافتہ ملکوں کے ایما پر کئی ایسے ادارے اور تنظیمیں کام کررہی ہوتی ہیں جو ظاہری طور پر امدادی اور فلاحی کاموں سرگرمیوں میں ملوث ہوتی ہیں لیکن ان کا اصل مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں یا این جی اوز پر اسی لیے پابندیاں عائد کی گئیں کہ ہمارے سکیورٹی ادارے ان کی سرگرمیوں سے مطمئن نہیں تھے۔ تمام حقائق تو قوم کے سامنے نہیں لائے گئے تاہم یہ ضرور بتایا گیا کہ ان میں سے کچھ تنظیمیں ایسے کاموں میں ملوث پائی گئیں جن کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچایا جارہا تھا۔ آج بھی ایسے کئی ادارے اور تنظیمیں ملک کے طول و عرض میں کام کررہی ہیں جو نوجوانوں کی مخصوص معاملات سے متعلق ذہن سازی سے لے کر ایک خاص قسم کے سماجی رویوں کو فروغ دینے تک ہر وہ کام کررہی ہیں جس کا مقصد پاکستان کی نظریاتی اساس کو کھوکھلا کرنا ہے۔ ان اداروں اور تنظیموں کی طرف سے ایسے افراد اور گروہوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کی جاتی ہے جو ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکیں۔
اسی نوعیت کی ایک تازہ مثال امریکی فلاحی ادارے یونائیٹڈ سٹیٹس ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ ) سے متعلق ہے۔ ویسے تو یہ ادارہ دنیا کے مختلف ترقی پذیر ممالک کو عوامی فلاح کے منصوبوں کے لیے امداد و اعانت دینے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے لیکن یہ مغربی طرزِ حیات اور فکر کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے۔ اسی ضمن میں یہ ادارہ پاکستان میں ایک ڈراما سیریز بنوا رہا ہے جس میں بظاہر خواجہ سراو¿ں کے حقوق کو موضوع بنایا گیا ہے لیکن ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار کا کہنا ہے کہ ’اس کی کہانی نیٹ فلیکس یا دیگر اسٹریمنگ ویب سائٹ کی ویب سیریز کی طرح بولڈ اور منفرد ہوگی جسے شائقین بہت پسند کریں گے‘۔ انگریزی زبان میں فلموں، ڈراموں اور اداکاروں وغیرہ کے لیے ’بولڈ‘ کی اصطلاح کن معانی میں استعمال ہوتی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یاد رہے کہ اسی قسم کی ایک فلم پر حکومت نے حال ہی میں پابندی عائد کی تھی اور اس پابندی کے بعد سے مغرب پسندوں نے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔
یہ کسی غیر ملکی ادارے کی طرف سے ایسے حساس موضوع پر پہلی پیشکش نہیں۔ گزشتہ تین چار دہائیوں سے مختلف امریکی اور یورپی ادارے اس نوعیت کے مختلف منصوبوں کو مسلسل مالی و تکنیکی معاونت فراہم کرتے آرہے ہیں جن کا مقصد پاکستان میں ایک خاص قسم کی سوچ اور ذہنیت کو فروغ دینا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہلے اس طرح کے موضوعات پر ڈرامے اور فلمیں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان میں پیش کیے گئے امور کو سامنے رکھ کر حکومتوں پر دباو¿ ڈال کر اپنی مرضی کی قانون سازی کرائی جاتی ہے۔ اقتصادی عدم استحکام کے باعث ہم ان ممالک کے دست نگر ہیں، لہٰذا ہمارے حکمران چاہ کر بھی ایسی کسی سرگرمی پر پابندی لگانے کا خیال بھی ذہن میں نہیں لاسکتے۔ معاشرے میں کچھ افراد اور گروہ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس طرح کی پیش رفتوں کے بارے میں مسلسل بات کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام کو مغربی امدادی اداروں کی تخریبی سرگرمیوں سے باخبر رکھا جاسکے تاہم ان اداروں کو جن ممالک کی حمایت حاصل ہے انھوں نے ہمارے پورے نظام کو یوں جکڑ رکھا ہے کہ مذکورہ افراد اور گروہوں کی باتیں بے اثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔
امدادی اداروں کے علاوہ مغربی ممالک کے ذرائع ابلاغ بھی پاکستان میں جو کچھ کررہے ہیں وہ نہایت قابلِ اعتراض ہے لیکن حکومت کے کسی ادارے میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس سب پر ذرا سی بھی بات کرسکے۔ برطانیہ کے بی بی سی، امریکا کے وائس آف امیریکا اور جرمنی کے ڈوئچے ویلے کی اردو ویب سائٹس پر خبروں کے نام پر جو کچھ چھاپا جارہا ہے اس کا واضح مقصد نوجوانوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنا ہے۔ ان اداروں کے سوشل میڈیا ہینڈلز اور ویب سائٹس کا جائزہ لے کر کوئی بھی شخص یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان پر کیا کچھ چھاپا جارہا ہے۔ ویسے حکومتی اداروں کو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کسی فرقے یا مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کسی دوسرے نقطہ¿ نظر کے حاملین کے خلاف کوئی ایک جملہ بھی لکھ کر شائع نہ کردیں لیکن ملک کی نظریاتی اساس پر مذکورہ مغربی ادارے مسلسل جو حملے کررہے ہیں ان پر کوئی ادارہ توجہ نہیں دے رہا یا تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا جارہا ہے کیونکہ جیسے ہی انھوں نے اس طرف توجہ دی ان کے نکیل ڈالنے کے لیے کارروائی کا آغاز کردیا جائے گا۔
یہ صورتحال زیادہ افسوس ناک اس لیے بھی ہے کہ مذہب کے نام پر بنی ہوئی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کے وابستگان بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کررہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اپنے تمام اختلافات بھلا کر متحد ہوں اور اس سب کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے معاشرے کو اس عفریت سے نجات دلائیں لیکن ان کی تمام تر توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف فتوے دینے اور باہم دست و گریبان ہونے میں خرچ ہورہی ہیں۔ وہ مسئلہ جس کے حل کے لیے انھیں اپنے وسائل کو بروئے کار لانا چاہیے اس طرف وہ کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ یہ ایسا حساس معاملہ ہے جس سے ملک اور معاشرے کا حال اور مستقبل دونوں جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا ہم اگر اس پر توجہ نہیں دیتے تو اس ملک اور معاشرے میں جو بگاڑ آئے گا اس کے لیے ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔ اس حوالے سے ہر شخص کو اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس بے راہ روی اور انتشار کا راستہ روکا جاسکے جس کا مقصد پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہو۔

ای پیپر-دی نیشن