بلاول کی عمران خان کو وارننگ
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پہلی بار عدم اعتماد کے ذریعے فوج‘ عدالت نے نہیں‘ پارلیمان نے وزیراعظم کو گھر بھیجا ہے جس کا کریڈٹ وہ وائٹ ہاﺅس کو دینا چاہتا ہے۔ عمران خان کے دور میں پاکستان تنہاءتھا‘ آج ہم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ترجمانی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو آخری وارننگ ہے کہ وہ پارلیمان میں آکر کام کریں‘ ورنہ انکے ساتھ جو ہوگا‘ وہ برداشت نہیں کرسکیں گے۔
اصولی طور پر تو عمران خان کو آئین و قانون کے مطابق پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہی اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنا چاہیے جس کا تقاضا ان سے عدلیہ بھی کر چکی ہے۔ مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اپنی حکومت چھن جانے کے بعد پہلے عمران خان نے اپنے خلاف بیرونی سازش کابیانیہ گھڑا اور بعد میں خود ہی اسکی تردید بھی کر دی۔ اب وہ ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کیخلاف سازش پاکستان سے ہوئی تھی۔ اگر عمران خان اس مبینہ سازش کیخلاف اپنی سیاسی جنگ آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں بیٹھ کر لڑتے تو وہ زیادہ مو¿ثر ہوتی۔ مگر انہوں نے عوامی حمایت اور ہمدردی حاصل کرنے کیلئے پبلک جلسوں اور لانگ مارچ کا سہارا لیا جس میں انہوں نے حکومت کے ساتھ ساتھ قومی اداروں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انکے اس انداز سیاست سے جہاں قومی سیاست میں دشنام طرازی اور مغلظات کے کلچر کو فروغ ملا وہیں انکی پارٹی کو بھی شدید دھچکا لگا۔ اگر وہ اب بھی بطور اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ میں بیٹھنے پر آمادہ ہو جائیں تو وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ چند ہفتے قبل وزیراعظم شہبازشریف بھی انہیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بات چیت کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں اور اب گزشتہ روز وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھی ان سے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا تقاضا کر چکے ہیں۔ عمران خان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ اپنی اس طرزِسیاست سے اب تک کچھ حاصل نہیں کر پائے تو انہیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کرہی ملک و قوم کے مفاد کیلئے سیاست کرنی چاہیے جو انکی پارٹی کا ماٹو بھی ہے۔ پارلیمنٹ واحد مجاز فورم ہے جہاں وہ اپنی آواز مو¿ثر انداز میں اٹھا سکتے ہیں۔