• news
  • image

گوادر کو حق دو تحریک کو تشدد کی راہ سے دور رکھنے کی ضرورت


کوئٹہ کی ڈائری … قومی اْفق … فیصل ادریس بٹ
’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک ایک اچھے مقصد کیلئے شروع کی گئی یہی وجہ ہے عوام کی بڑی تعداد اس کی ہمنوا بن گئی۔ سچ بھی یہ ہے کہ جس علاقہ کو سی پیک کاریڈور منصوبے میں سر کی حیثیت حاصل ہے وہاں تمام تر ترقیاتی کاموں کے آغاز کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ وہاں کی مقامی آبادی کو شکایت ہے کہ گوادر شہر اور اس کے قرب و جوار کے عوامی علاقوں میں عوام ابھی تک تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سڑکیں کھنڈرات کا نقشہ پیش کر رہی ہیں، پینے کے لئے صاف پانی ایک خواب ہے، صحت کے لئے ہسپتال تو چھوڑیں طبی مرکز ہی مل جائیں تو عوام کو قرار آ جائے۔ بجلی، گیس تو بس ایک خواب ہیں، سکول کالجوں کی زبوں حالی دیکھ کر رونا آتا ہے۔
اگر سی پیک کے اصل مرکز پر پہلے توجہ دی جائے تو عوامی مسائل حل ہو سکتے ہیں جس سے بپھرے ہوئے جذبات ٹھنڈے پڑ سکتے ہیں۔ مگر افسوس حکمرانوں اور مقامی انتظامیہ کی بے حسی کی وجہ سے یہاں کچھ مقامی جماعتوں، قوم پرست عناصر اور جماعت اسلامی جیسی سلجھی جماعت نے مل کر اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی تو اسے فوری طور پر لوگوں کی بھرپور حمایت حاصل ہو گئی۔ اب حکومت بلوچستان کے ہاتھ پاؤں پھولے۔ انہوں نے چند ماہ قبل کسی نہ کسی طرح ان عناصر کے ساتھ مذکرات کر کے ان کے مسائل حل کرنے کی حامی بھرلی۔ مگر شاید ابھی تک اس کی نوبت نہیں آئی اور معاملات جوں کے توں ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ حساس صوبہ ہے یہاں ایک طرف سمندر دوسری طرف ایران تیسری طرف افغانستان کے طویل بارڈر لگتے ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے بہت سے ممالک کو سخت تحفظات ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو ان کی معیشت پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ محل وقوع کے اعتبار سے بحیرہ عرب میں خلیج فارس کے دھانے پر واقع ہے۔ مشرق وسطیٰ اور ایران بھی اس کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ بڑی بڑی طاقتیں بھی پاکستان اور چین کی بڑھتی قربتوں سے خائف ہیں خاص طور پر بھارت کو سی پیک منصوبہ کسی صورت قبول نہیں وہ نہیں چاہتا کہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان میں معاشی تبدیلی آئے وہاں صنعت و تجارت کو فروغ ملے۔ اس لئے وہ ہر ممکن طریقے سے اس منصوبے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور اپنے  ایجنٹوںسے تخریبی کارروائیاں کراتا رہتا  ہے۔سابق دور حکومت میں سی پیک پر نہ ہونے کے برابر کام ہوا۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے آتے ہی سی پیک پر تیزی سے کام شروع کر وا رکھا ہے اور وہاں کے دھواں دار دورے بھی جاری ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو کو چاہیے کہ ’’حق دو‘‘ تحریک کے مدِ مقابل گوادر کی محرومیاں ختم کرنے کے لئے حکومتی سرپرستی میں ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردیں اور اپنے اور وفاقی حکومت سے تمام وسائل بروئے کار لاکر گوادر کے عوام کو وہ تمام بنیادی سہولتیں مہیاکر دیں جو ان کا حق ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایات پر  جیسے ہی اس کام میں تیزی لائی گئی ہے، غیر ملکی عناصر نے  گوادر میں حالات خراب کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک میں شامل بعض عناصر اس تحریک کی آڑ میں ریاست اور سکیورٹی حکام کے خلاف جس طرح نفرت انگیز پراپیگنڈہ مہم  چلانے لگے ہیں وہ اصل مقصد سے متضاد ہے۔
عوامی مقامات پر دھرنا دینا،مرکزی سڑکوں اور رابطہ سڑکوں کو بلاک کر کے آمد و رفت کے ذرائع بند کرنا، پْرتشدد احتجاج کی راہ دکھانا، کبھی مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ مسائل کا حل پْرامن طریقے سے باہمی مذاکرات سے ہی نکلتا ہے جس کیلئے دونوں فریقوں یعنی حکومت اور ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے قائدین کو ہمت و حوصلے سے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ تصادم اور انتشار کی بجائے مفاہمت اور اتحاد کی راہ نکالی جائے۔ گوادر شہر کو ترقی دینا وہاں کے مسائل حل کرنا حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہونی چاہئے کیونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور گوادر اس منصوبے کا سب سے اہم اور بڑا مرکز ہے۔ منصوبے کے مطابق تو اسے ایک بڑا ترقی یافتہ شہر بنانا بھی شامل ہے تو پھر تاخیر کس بات کی؟ وہاں کی اراضی اور ملازمتوں پر کاروبار میں پہلا حق وہاں کی مقامی آبادی کا ہے جو انہیں دینا ضروری ہے جب ان تک کو بنیادی حقوق نہیں ملیں گے تو یہ مسائل اور دھرنے سر اٹھاتے رہیں گے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب مسئلہ سر پر آ پہنچتا ہے توہم ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتے ہیں اور افراتفری میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔
عالمی سطح کی اس بندرگاہ جو عالمی تجارت کا مرکز بن رہی ہے اس سے منسلک شہر کو بھی عالمی نہ سہی جدید شہر بنانے پر ساری توجہ مرکوز کر کے ہی وہاں کے عوام کا دل جیتے جاسکتے ہیں  ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے قائدین کو بھی چاہئے کہ وہ حوصلے و ہمت سے کام لیں نہ کہ  لڑائی کا ایندھن  بننے دیں ورنہ اگر یہ احتجاج انتہا پسند عناصر کے ہتھے چڑھ گیا اور آگ لگانے والے قوم پرست یا عسکریت پسند اس پر غالب آگئے  تو جو بھارت  اور پاکستان مخالف عالمی  طاقتیں جو چاہتی ہیں  کہ  سی پیک کامیاب نہ ہو پھر صورتحال کسی کے قابو میں نہیں رہے گی پڑھے لکھے باشعور قائدین ایسی نوبت ہی نہ آنے دیں۔ جلاؤ گھیراؤ  سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بھارت کے لے پالک تنخواہ دار ایجنٹ یہی چاہتے ہیں کہ اس حساس خطہ میں بھی سکیورٹی فورسز کو عسکریت پسندوں کے سامنے کھڑا کر کے فتنہ و فساد کو ہوا دے۔
ہماری سکیورٹی فورسز پہلے ہی اندرونی و بیرونی دشمنوں کے خلاف گوادر تا شمالی وزیرستان نبردآزما ہیں۔ہمارے جوان جان فروشی اور بہادری کی ایسی ایسی داستانیں رقم کر رہے ہیں کہ دنیا حیران ہے کہ یہ جوان کس مٹی کے بنے ہیں جو دیوانہ وار اپنی مادر وطن کے لئے آگ و آہن سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔ بنوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں گزشتہ روز شر پسندوں نے سرکاری عمارت کو یرغمال بنا کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ہمارے جوانوں نے سردھڑ کی بازی لگا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس موقع پر ہمارے ایک بہادر سپوت میجر عابد زمان نے سرفروشی کی ایک ایسی مثال قائم کی جس پر ہماری سکیورٹی فورسز کو فخر رہے گا۔ میجر عابد زمان کوئٹہ سٹاف کالج۔کورس پر تھے وہاںسے وہ رخصت لے کر گھر گئے ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایس ایس جی کمانڈوز ضرار گروپ سے ہے۔ انہوں نے درخواست دے کر اپنی چھٹیاں کینسل کروائیں اور سیدھے میدان کارزار میں جا پہنچے اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا ۔ پوری قوم کو ایسے جوانوں پر فخر ہے اس لئے ہمیں سیاسی شعبدہ بازی کے عمل سے سکیورٹی فورسز کو دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ اپنے حقیقی کام پر توجہ دیں۔ کور کمانڈر کوئٹہ جنرل آصف غفور بلوچستان حکومت کے ساتھ ملکر پرُامن بلوچستان کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں جنرل آصف غفور کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے دہشت گردی کی نئی لہر کا بھی بھرپور مردانہ وار جواب دیا جا رہا ہے۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی اگلے مورچوں کے دھواں دار دورے شروع کر رکھے ہیں تاکہ جوانوں کا لہو سپہ سالار کی آمد کی بدولت گرماتا رہے ۔ جنرل عاصم منیر کی سی پیک کی تکمیل اور بھارت کی بلوچستان میںدر اندازی کے حوالے سے پالیسی بہت کلئیر ہے کہ آئندہ اگر میلی آنکھ سے دیکھا تو بھارت میں گھس کر تمہیں ماریں گے۔ 

فیصل ادریس بٹ

فیصل ادریس بٹ

epaper

ای پیپر-دی نیشن