مسلم لیگ میں مقررہ وقت پر عام انتخابات کا موقف
لاہور … … قومی افق
ندیم بسرا
ملکی سیاست میں کھیل ہمیشہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلا جاتا ہے۔ بعض دفعہ سیاسی حالات کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں اور سیاست دان کچھ اور راگ آلاپ رہے ہوتے ہیں۔ عمران خان کے زمان پارک میں مسلسل پڑاؤ نے تمام سیاسی توپوں کا رُخ لاہور کی طرف موڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور خود وزیراعظم شہبازشریف نے سیاسی بیٹھکوں کو لاہور کا مرکز بنا دیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ملک میں عمران خان کے کہنے پر انتخابات کی تاریح کا اعلان نہیں ہونا تو پھر آگے کی صورتحال کیا ہوگی؟ کیا بلاول ہاؤس سے ’’سازش‘‘ جو خود بلاول بھٹو کہہ رہے ہیں کہ ’’رجیم چینج‘‘ امریکہ نے نہیں بلکہ بلاول ہاؤس سے ہوا۔ جیالوں نے انہیں حکومت سے باہر پھینکا تو پھراس کے تانے بانے عمران خان کو مزید ڈھونڈنے نہیں پڑیں گے۔ اگر یہ سازش بے نقاب ہوگئی ہے تو ملکی سیاسی صورتحال کس طرف جائیں گے؟ کیا عمران خان کا فوری انتخابات کا مطالبہ رد کردیا گیا ہے؟ کیا وفاق کو بچانے کے لئے صرف شہبازشریف کی ٹیم ہی متحرک ہے؟ کیا نوازشریف کی ٹیم انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے؟ کیا پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلی ٹوٹنے کی باتیں صرف زبانی کلامی دعوے ہی ثابت ہوئیں؟ چیزیں تو صحیح سمت میں نہیں جا رہیں کیونکہ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ فوری انتخابات عمران خان ان کی جماعت کے لئے ’’قیمتی تحفہ‘‘ ثابت ہوگا اور باقی جماعتوں کے لئے ڈراؤنا خواب ہی نہ بن جائے اس لئے کوشش کر کے انتخابات کے مطالبے کو پسِ پشت ہی ڈال دیا جائے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی مقبولیت کو کسی طریقے سے کم کیا جائے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) کے کئی مرکزی رہنما بھی حالات کو دیکھتے ہوئے الیکشن کی تیاریوں میں نظر آتے ہیں۔ خواجہ آصف اپنے حلقے سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سمیت دیگر جلسوں میں عوام کا جوش گرماتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ احسن اقبال اپنے حلقے نارووال میں عوام کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ خواجہ سعد رفیق بھی حلقے کے عوام میں نظر آتے ہیں۔ ایاز صادق بھی حلقے یا مختلف سیاسی جلسوں میں تقریر کرتے نظر آتے ہیں اور کیپٹن صفدر بھی ایبٹ آباد حویلیاں میں جلسوں اور عوام میں جاتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی حلقوں کے ذرائع بتاتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں نوازشریف خاموش ہیں۔ ذرائع کا خیال ہے کہ شاید وہ بھی الیکشن چاہتے ہیں۔ ان کے نمائندے اسحاق ڈار نے موجودہ صورتحال میں صرف ایک دو بار صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کی ہے۔ لاہور میں ہونے والی کسی سرگرمی خصوصی چودھری شجاعت سے ہونیوالی (ن) لیگ کی ملاقاتوں میں وہ نظر نہیں آئے۔ شاید وہ موجودہ حالات میں الیکشن ہی ملک کے مستقبل کا صحیح فیصلہ سمجھتے ہوں اور (ن) لیگ کے مرکزی رہنماؤں کا اپنے حلقے کے عوام میں جانا اور ورکرز کنونشن کرنا اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ شاید خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ آصف، کیپٹن صفدر، ایاز صادق کا اپنے حلقوں میں الیکشن کی تاریخ سے قبل تیاری کرنا بھی بہتر فیصلہ نظر آرہا ہے۔ (ن) لیگ کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ ٹیم نوازشریف کی قریبی ٹیم سمجھی جاتی ہے اس لئے وہ عوامی جلسوں کی طرف جا رہی ہے۔ شاید وہ موجودہ حالات میں زیادہ دیر اسمبلیوں کے قائم رہنے کو بہتر نہیں سمجھتے ہوں کہ اس سے ملکی معاشی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے اس لئے وہ عام انتخابات کو ہی بہتر سمجھتے ہوں۔
اگر (ن) لیگ کی ایک ٹیم الیکشن کو ہی فوری بہتر حل سمجھتی ہے تو دوسری ٹیم آئندہ انتخابات کو اکتوبر 2023ء ہی بہتر سمجھتی ہے؟ اسی طرح مسلم لیگ ن میں تمام لوگ مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ وفاقی حکومت اکتوبر تک اسمبلیوں کے قائم رکھنے کو بہتر سمجھتی ہے اور مولانا فضل الرحمن سمیت کچھ پی ڈی ایم سیاسی جماعتیں بھی اسی کی حامی ہیں۔ مگر پاکستان پیپلزپارٹی خصوصاً آصف علی زرداری اس سوچ کے حامی نہیں ، کیونکہ پی ڈی ایم میںسے ایک بار پہلے بھی پیپلزپارٹی نکل چکی ہے اور دوبارہ اس کا حصہ بنی ہے، اس لئے ان کی سوچ مختلف نظر آتی ہے۔ شاید وہ ایک خاص راہ و رسم کے تحت پی ڈی ایم میں شامل رہنا چاہتی ہے۔ باقی پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی صورتحال بھی ملکی سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں فی الحال تو ٹوٹتی نظر نہیں آتیں۔ پنجاب کابینہ میں جس طرح نئے معاونین، وزراء کا اضافہ ہو رہا ہے استعفیٰ دینے کے بعد رکن پنجاب اسمبلی صوبائی وزیر حسنین بہادر دریشک کا استعفیٰ واپس ہونا اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں پی ٹی آئی کے حلقے عمران خان کو اپنی بات پر قائل کر چکے ہیں کہ وقتی طور پر اسمبلیوں کے تحلیل کے ایشو سے پیچھے ہٹ جائیں اسی میں زیادہ سیاسی فائدہ ہے۔ مونس الٰہی کی مسلسل عمران خان سے میٹنگوں کا احوال بھی سب کے سامنے عیاں ہے کہ وہ ہر بار انہیں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں، جو آپ کہیں گے وہی ہوگا‘‘ جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ فیصلوں پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ چودھری پرویزالٰہی ہر طرح سے مکمل تیار ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں ثابت قدم رہنا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مختلف دباؤ ہونے کے باوجود انہوں نے پی ٹی آئی سے اپنا اتحاد ختم نہیں کیا اس لئے پنجاب کی صورتحال بھی وفاق کی سیاسی صورتحال کے ساتھ منسلک ہوگئی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا بھی کہنا ہے کہ شاید اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کا وقت مارچ سے اپریل 2023ء ہوگا اور اس پر پی ٹی آئی سمیت پی ڈی ایم کا اتفاق ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو آئندہ تین سے چار ماہ سیاسی درجہ حرارت کس طرح کا ہوگا اہم سوال ہے؟ کیا عمران اس دوران اپنے حامیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا رکھ سکیں گے؟ کیا پی ڈی ایم اس عرصے کے دوران اپنا اتحاد قائم رکھ سکے گی؟ کیا پی ڈی ایم والے آئندہ مل کر ایک سیاسی اتحاد کے ساتھ انتخابات کیلئے انتخابی میدان میں اترنے کا اعلان کر سکتے ہیں؟ ایسے کئی سوالات ہیں جس کے جوابات یقیناً نئے سال جنوری 2023ء میں عوام کو مل جائیں گے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛