الکشن کمیشن کیخلاف توہین کی کاروائی نہیں بنتی
اسلام آباد (وقائع نگار+نمائندہ خصوصی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق الیکشن کمشن نوٹیفکیشن کے خلاف درخواستوں میں الیکشن کمشن کو وفاقی حکومت سے میٹنگ کرکے الیکشن کی ٹائم لائن عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے فریقین سے تحریری دلائل طلب کرلیے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل شروع کیے تو عدالت نے کہاکہ کیا آپ نے کل کا ہمارا آرڈر دیکھا؟، ان سوالات پر معاونت کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیوں نہ کیا جائے؟، عدالت نے پوچھا کہ الیکشن تیاری پر ہوئے اخراجات کابینہ کی تنخواہ سے کیوں نہ کاٹیں، ڈی جی لا الیکشن کمشن موجود ہیں ان سے پوچھیں الیکشن ملتوی کیوں ہوئے۔ عدالت نے ڈی جی الیکشن کمشن سے کہاکہ یہ تو آپ پر ڈال رہے ہیں اب آپ بتائیں، کیا الیکشن کمیشن 31 دسمبر کو الیکشن کرانے پر تیار ہے؟، جس پر ڈی جی الیکشن کمشن نے کہاکہ الیکشن کے سامان کی ترسیل کرنے میں وقت لگے گا۔ عدالت نے کہا کہ سامان کی ترسیل تو آپ کر چکے تھے کل آپ نے کہا تھا، اسلام آباد کے اندر ہی سامان کی ترسیل میں کتنا وقت لگے گا یہ بتائیں، کیا الیکشن کمشن کا فیصلہ عدالت میں کرائی گئی یقین دہانی کے منافی نہیں؟، جس پر ڈی جی الیکشن کمشن نے کہاکہ نئی صورتحال میں 31دسمبر کو الیکشن ممکن نہیں تھے، عدالت نے کہا کہ کیا بلدیاتی الیکشن کا سامان منتقل ہو چکا ہے؟، ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ مشکل ہے، ابھی سامان منتقل نہیں ہوا، بیلٹ پیپرز چھپ چکے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ الیکشن کمشن نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو نئی حلقہ بندیوں کے تحت الیکشن کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی، کیا الیکشن نہ کرانے پر الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں بنتی؟۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ الیکشن ایکٹ وفاقی حکومت کو یونین کونسلز کی تعداد میں تبدیلی کا اختیار دیتا ہے۔ عدالت نے کہاکہ وفاقی حکومت کسی بھی وقت یونین کونسلز کی تعداد تبدیل کر سکتی ہے؟، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ یونین کونسلز کی تعداد میں تبدیلی پر وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے، وفاقی حکومت الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد لوکل ایریا تبدیل کر سکتی ہے،وفاقی حکومت الیکشن کے شیڈول کے اعلان کے بعد لوکل ایریا میں تبدیلی نہیں کر سکتی، یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر بحث آیا کہ کیا یونین کونسلز کی تعداد میں تبدیلی کا لوکل ایریا پر اثر پڑے گا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ اب تک الیکشن کمیشن ان انتخابات پر کتنے اخراجات کر چکا ہے، وکیل الیکشن کمشن نے کہاکہ اب تک 50 سے 60 کروڑ کا خرچہ ہو چکا ہے، عدالت نے استفسار کیاکہ اس کا کون ذمہ دار ہے، یہ پیسہ کس کا تھا، جس پر وکیل نے کہاکہ یہ ٹیکس پیئر کا پیسہ ہے، وفاقی حکومت نے فنڈ جاری کیا تھا،جسٹس ارباب محمد طاہرنے کہاکہ یہ عدالت کسی صورت ٹیکس پیئر پر اس کا بوجھ نہیں ڈالنے دے گی،کیا یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کے بل لی صدر سے منظوری ہو چکی؟ عدالت نے ڈی جی الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ جو فنڈز الیکشن کمیشن کو فراہم کیے گئے وہ کن چیزوں پر خرچ ہوئے؟، کیا اب تک پچاس ساٹھ کروڑ کی رقم خرچ نہیں ہو چکی؟ جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے بتایاکہ نہیں، ابھی اتنی رقم خرچ نہیں ہوئی، تحریری طور پر عدالت کو بتائیں گے۔ عدالت نے کہاکہ اب تک الیکشن کمیشن کتنے فنڈز خرچ کر چکا ہے؟ تحریری طور پر بتائیں، ذہن نشین کر لیں یہ عدالت کسی صورت قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچانے دے گی، جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیے کہ جو صورتحال ہے آپ اسے سے آگاہ ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی بالکل معلوم ہے، میں اپنے دفتر میں بھی بجلی تک کی بچت کرتا ہوں، عدالت نے کہا الیکشن کمشن کا فیصلہ معطل کیوں نہ کیا جائے؟، الیکشن کمیشن وکیل نے کہاکہ ہم نے حلقہ بندیاں بڑھانے کا فیصلہ مسترد کرنے کا آرڈر جاری کیا تھا، ہائیکورٹ نے ہمارا وہ آرڈر کالعدم قرار دیا تھا، ہائیکورٹ نے ہمیں فریقین کو دوبارہ سن کر فیصلہ کرنے کا کہا، ہم نے فریقین کو سن کر ہی الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ دیا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے اس کارروائی کا آغاز وفاقی حکومت کے 2015 کے نوٹیفکیشن کی بنیاد پر کیا، عدالت نے مکمل ریکارڈ ساتھ نہ لانے پر الیکشن کمیشن ٹیم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آج سارا ریکارڈ ساتھ لانا تھا، گزشتہ روز جاری کئے گئے نوٹس میں آپ کو مکمل ریکارڈ ساتھ لانے کا کہا گیا، عدالت نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب آپ اپنا موقف آج ہی تحریری دے دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ مجھے دو تین کا وقت دیا جائے، عدالت نے کہا کہ اگر دو تین دن چاہییں تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلہ معطل ہونے کے اثرات کیا ہوں گے؟، عدالت نے کہا کہ اثرات یہ ہوں گے کہ شیڈیول کیمطابق 101یوسیز میں الیکشن ہوں گے، جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہاکہ اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن آج تحریری جواب دائر کریں، سادہ کیس ہے اب ہمیں اسے کنفیوز نہیں کرنا چاہیے، فوری تحریری جواب جمع کرائیں کل صبح(جمعہ کو) دوبارہ یہ کیس سن لیتے ہیں، عدالت نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے کام بہت جلدبازی میں نہیں کیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ اب اگر الیکشن ملتوی کرنے کا آرڈر کالعدم ہوا تو مسائل ہوں گے، پی ٹی آئی وکیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن اور حکومت کا الیکشن شیڈول پر ہونے سے کون سا حق متاثر ہوگا؟، عدالت نے کہاکہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے الیکشن کمیشن جلد بازی میں کیوں چلتا ہے، یہ لوگوں کے ووٹ کے حق کا معاملہ ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ 31 دسمبر کو الیکشن نہیں ہو سکتا، جس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہاکہ 27 دسمبر تک تو یہ کہہ رہے تھے ہم بالکل تیار ہیں، ایک دن میں ایسا کیا ہو گیا کہ الیکشن کمیشن اب ووٹنگ کیلئے تیار نہیں؟، عدالت نے الیکشن کمیشن کو فوری وفاقی حکومت سے میٹنگ کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت سے میٹنگ کر کے کل الیکشن کی ٹائم لائن دیں، ایک حقیقی ٹائم لائن دیں یہ نہ ہو کہیں جون 2023 میں الیکشن ہوں گے، کل اگر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ 31 کو الیکشن نہیں ہونے تو آپ کی ٹائم لائن دیکھیں گے، صبح دس بجے تک تحریری جواب اور ٹائم لائن عدالت میں جمع کرائیں، عدالت نے کیس کی سماعت آج دن دو بجے تک کیلئے ملتوی کردی۔ الیکشن کمشن کا اسلام آباد بلدیاتی انتخابات رمضان میں کرانے کا عندیہ۔ دوسری جانب الیکشن کمشن نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات رمضان میں کرانے کا عندیہ دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشن حکام کی اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے ملاقات ہوئی ہے جس میں الیکشن کمشن کے ڈی جی لاء اور سپیشل سیکرٹری نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ 1997 میں بھی عام انتخابات ماہ رمضان میں منعقد ہوئے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ