سال کا آخری کالم
ویلکم ٹو پرانا پاکستان۔ بڑی ہی رعونت سے یہ جملہ بلاول زرداری نے اقتدار پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ مگر آج ملک میں ایک طرف سیاسی استحکام کی کمی ہے تو دوسری طرف معاشی حالات دگرگوں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حالات میں پیدا ہونے والا یہ بگاڑ کیسے درست ہو گا؟ کسی کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ عمران خان نے صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کی جو حکمت عملی اختیار کی تھی اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ وہ صرف دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے، اگر اسمبلی تو ڑ تا واقعی مقصود ہوتا تو عمران خان پہلے دن اعلان کے ساتھ اسمبلیاں توڑ دیتے۔ اب جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی ہے ، گورنر پنجاب بھی اپنا پتہ شو کر چکے ہیں ،اوپر سے عدالت میں جا کر اب یہ معاملہ کتنی طوالت پکڑ سکتا ہے کسی کو علم نہیں۔ اگر مہینے ، مہینے کی ایک دو تاریخیں اور دی گئیں تو موسم بہار تو آ جائے گا ،مگر یہ بحران قائم رہے گا۔ ویسے دیکھا جائے تو اسپیکر پنجاب اسمبلی کے بیان کے بعد حالات پھر سنجیدہ تو گئے ہیں مگر جہاں سیاسی بحران پہلے سے زیادہ بڑھ چکا ہے اور سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں معاشی سرگرمیاں بھی دم توڑ رہی ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ پی ڈی ایم کے پاس مطلوبہ ووٹ ہی نہیں ہیں مگر یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کوئی نہیں جانتا۔
عمران خان کا مقصد بھی یہی لگتا ہے کہ وہ سیاسی دباؤ برقرار رکھنا چاہ رہے ہیں۔ وہ اپوزیشن میں ہیں اور اسمبلی سے باہر بیٹھ کر بھی حکومت کو حقیقی ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ یہاں تک کے اب حکومت کے حامی صحافی بھی مہنگائی پر چیخیں مار رہے ہیں۔ سیاسی بے یقینی موجودر ہے گی تو حکومت پر دباؤ بھی پڑے گیا اور اس کی کارکردگی بھی عوام کی نظر میں مثالی نہیں رہے گی۔ یہ صورت حال کسی طرح بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں کیونکہ اس بے یقینی کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے بلکہ سرمایہ کار اپنے وسائل سمیٹ کر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ بیرونی امداد بھی رک گئی ہے، اسی وجہ سے کوئی بھی پاکستان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ ایک عجیب قسم کی صورت حال میں اس وقت ملک پھنس کر رہ گیا ہے اور بظاہر ایسی کوئی کوشش بھی نظر نہیں آتی جو ہمیں اس بے یقینی سے نکال سکے۔ گویا یہ سیاسی رسہ کشی جاری رہے گی کیونکہ عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ موجود سیٹ اپ ہر صورت میں ختم ہو جائے اور نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ اب تو ان کا اضطراب اس حوالے سے بھی بڑھتا جارہا ہے کہ انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ حکومت شاید اکتوبر میں بھی انتخابات نہیں کرائے گی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ انتخابی اتحاد الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے الیکشن سال، ڈیڑھ سال مزید آگے لے جانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے جب دونوں فریقوں میں کوئی رابطہ نہیں ہو گا تو خدشات اور وسو سے ہی آئیں گے جو اس وقت پورے سیاسی منظر ہا ہے پرچھائے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ساری کشمکش کا اختتام کیسے ہوگا؟ بات جو درمیان میں رک گئی ہے، آگے کیسے چلے گی؟ ڈیڈ لاک جس نے پوری سیاست کو جکڑ رکھا ہے، اس ڈیڈ لاک کی وجہ سے ملک کا کتنانقصان ہو رہا ہے، کم از کم سیاستدانوں کو تو اس کی کوئی پروا نظر نہیں آتی۔ عمران خان اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں اور حکومت اپنے موقف پر ڈائی ہوئی ہے، نہ کوئی دو قدم آگے جا رہا ہے نہ ہی کوئی دو قدم پیچھے بنے کو تیار ہے، ایسا دنیا کی کسی جمہوریت میں نہیں ہوتا۔ جمہوریت ایک دوسرے سے مکالمے کا نام ہے، قومی مفاد میں’’ کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی پالیسی ہی جمہوریت کی اساس کہلاتی ہے مگر ہماری جمہوریت اس اساس سے محروم ہے۔ ایک خود غرضی ہے جس نے چاروں طرف سے ہمیں گھیر رکھا ہے ۔
اوپر سے اب ٹیکنو کریٹ حکومت کا شوشہ! کون کر رہا ہے یہ سب منصوبہ بندی؟ کہاں سے یہ سب خبریں آ رہی ہیں؟ ان خبروں سے اور ایسے منصوبوں سے ملک میں معاشی نظام ٹھپ ہوتا جارہا ہے۔ مسلسل ملک دیوالیہ ہونے کی خبر میں آرہی ہیں، ملک میں ڈالر ناپید ہو چکے ہیں، کراچی کی بندرگاہ پر سینکڑوں نہیں، ہزاروں کنٹینز صرف اس لئے کلیئر نہیں ہور ہے کہ ادائیگی کے لئے زرمبادلہ موجود نہیں ہے۔ آخر یہ سب کچھ کب تک چلے گا، کب تک ملک کو بے یقینی میں مبتلا رکھا جا سکتا ہے؟ سٹاک ایکس چینچ روزانہ کریش ہو جاتی ہے، سونا تاریخی سطح تک مہنگا ہو چکا ہے، ملک کی کرنسی بے تو قیری کی آخری منزل پر کھڑی ہے۔ خیبر پختو نخوا میں حکومت سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور پینشن نہیں دے پا رہی اس سب کے باوجود ہماری سیاسی اشرافیہ اپنی جھوٹی اناؤں اور مفادات کے خول میں بند ہو کر سیاسی کھیل میں مگن ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ 2023ء میں ہم پہلے جیسے مضبوط اور مستحکم پاکستان کے ساتھ داخل ہوں اور وطن ِ عزیز کو مزید بہتر بنا سکیں ۔