سال نو کی آمد کا جشن
دو روز بعد نیا سال شروع ہو گا۔ دنیا بھر میں روایتی طور پر نئے سال کی خوبصورت تقریبات ہوں گی لوگ پرانے سال سے وابستہ تمام اچھی بری یادوں کو فراموش کرتے ہوئے ایک نئی امنگ اور نئے جذبے کے ساتھ 2023ء کو خوش آمدید کہیں گے۔ باوجود اس کے کہ اس وقت امریکہ اور یورپ میں بدترین برفانی طوفان نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ مگر اہل مغرب کی یہ ایک خوبی ہے کہ وہ بدترین حالات میں بھی خوشی کے لمحات کو فراموش ہونے نہیں دیتے اور ان لمحات سے انجوائے کرتے ہیں۔ یہ لمحات چاہے کتنے مختصر ہی کیوں نہ ہو ان سے لطف اندوز ہونا اپنے غموں اور دکھوں کو بھول کر کچھ دیر ان کے ساتھ خوشیاں مناتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ
کتنی گریزپا ہیں مسرتیں کی ساعتیں
اے دوست ان کے پائوں میں زنجیر ڈال دے
ہمارے ہاں چونکہ یاس اور حسرت نے کچھ زیادہ ڈیرے ڈال رکھے ہوتے ہیں اس لیے ہم بہت کم ان خوشی کے چند لمحات سے لطف اٹھا پاتے ہیں۔ یہ تو کچھ بے فکرے نوجوان اور لاابالی لوگ 31 دسمبر کی سرد رات میں تنہا یا دوستوں کے ساتھ یا فیملی کے ساتھ رات بارہ بجے سڑکوں پر ہلہ گلہ مچانے نکل آتے ہیں جنہیں پولیس والے ڈانڈا ڈولی کر کے بھگاتے پھرتے ہیں۔ چلیں یہی غنیمت ہے کسی بہانے تو کچھ لوگ سب غم بھلا کر حالات کے جبر سے نکل کر ہائو ہو کرتے نظر آتے ہیں۔ اس بار تو موسم بھی کچھ زیادہ ہی سرد اور بے درد ہے۔ اس میں جو باہر نکلنے کی ہمت کرے تو واقع اسے داد دینی چاہیے۔ مگر شرط یہ ہے کہ خوشی کے ان لمحات میں بدمزگی، بدتہذیب اور لچر پن کے مظاہرے نہ ہوں۔ خوشیاں منائیں دوسروں کو بھی منانے دیں مگر بداخلاقی ہلڑ بازیسے دور رہیں۔
ایک طرف یہ عام طبقے والے لوگ اس طرح سال نو جشن مناتے ہیں یہ اس جشن کا عوامی رنگ ہوتا ہے۔ دوسری طرف اشرافیہ بھی اپنے طور پر نئے سال کی آمد کا جشن مناتے ہیں۔ فارم ہائوسز بڑے بڑے بنگلوں، وی آئی پی ہوٹلوں بڑے ریستورانوں میں کڑے پہرے میں ان کی باپردہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں کوئی بنا اجازت پر بھی نہیں مار سکتا۔ ان گرم ھالوں میں ایسا رومانٹک سماں ہوتا ہے کہ بنے پٹے ہی سرور آنے لگتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ان شرفا کے لیے نائو نوش کا بھرپور انتظام ہوتا ہے۔ ساز و آہنگ کے ساتھ پری چہرہ لوگوں کے درمیان ہنسی مذاق ناز و ادا کا سلسلہ 12 بجتے ہی عروج پر پہنچ جاتا ہے پھر 12 بجتے ہی ان محفلوں میں
’’ہم جدا کس سے ہوئے کس سے بغل گیر ہوئے‘‘
کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا۔ تھرکتے جسم، ہاتھوں میں مئے گلفام پہلو میں ماہتاب ہو تو کسے یاد رہتا ہے کہ کب کیا ہوا ویسے بھی جب
’’ہاتھوں میں جام سر پہ قمر ہاتھ میں شراب‘‘
ہو تو کون ان لمحات کو بھول پاتا ہے۔
ان تقریبات میں یوں لگتا ہے گویا ہم پاکستان جیسے مسائل کے مارے زبوں حالی کا شکار کسی ملک میں نہیں کسی مغربی معاشرے میں موجود ہیں۔ جہاں مال دولت کی ریل پیل نے چہروں پر غازہ کے علاوہ مال آسودگی نے بھی سرخی بکھیر دی ہے۔ ہر طرف رنگ و خوشبو کا دور دورہ ہوتا ہے۔ مگر یہ صرف 10 فیصد اشرافیہ کے لچھن ہیں جو اس رات کروڑوں روپے ایسی محفلوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر ہم اصل 90 فیصد پاکستانیوں کی طرف دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نیا سال کب آیا اور پرانا سال کب گیا۔ ان کی اکثریت یکم تاریخ کو تنخواہ کے چکر میں پڑی رہتی ہے یا اپنے اخراجات کے غم میں گُھلی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پر مسلط حاکموں کی طرف دیکھتے ہوئے بے اختیار دعا کرتے ہیں
پچھلے برس تھا خوف تجھے کھو نہ دوں کیں
اب کے برس دعا ہے تیرا سامنا نہ ہو
کیوں کہ یہ کڑوروں بھوکے ننگے بے سروسامان لوگ جانتے ہیں کہ ا ن کے خون پسینے سے کمائی دولت پر یہ چند مراعات یافتہ طبقے عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں مگر افسوس یہ کروڑوں کا ہجوم قوم بن کر ان اشرافیہ کے خلاف قدم نہیں اٹھایا۔ ان کے گریبان پر ہاتھ ڈال کر ان سے اپنا حق طلب نہیں کرتا۔ قوم کی اسی بے حسی کی وجہ سے یہ اشرافیہ ہر انجام سے بے خبر ھل من مزید کے نعرے لگاتے بچے کھچے ملک کو ملکی خزانے کو بھی ہڑپ کرنے کے لیے بے چین رہتے ہیں اور اندرون و بیرون ملک اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔
دعا ہے کہ 2023ء کا سال ملک و قوم کے لیے ایک نئی سحر کا پیغام لائے۔ 20 کروڑ بھوکے ننگے عوام کے دامن میں بھی خوشیاں اتریں انہیں بھی ان کے حصے کا رزق نصیب ہو۔ ان کے آنگن میں بھی بہار آئے۔ ان کو بھی پیٹ بھر کر روٹی نصیب ہو تن ڈھانکنے کو کپڑا ملے اور اگر سر چھپانے کو چھت ملے تو ان کی زندگیاں بھی آسان ہو جائیں گی اورپھر وہ اپنے حاکموں کو جھولیاں بھر بھر کر دعائیں دیں گے۔